Maktaba Wahhabi

143 - 146
اَلْمُغْنِیُ ’’بے نیاز و غنی بنا دینے والا‘‘ اِغنا غنی نمودن۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل ایمان سے وعدہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا: ﴿وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی﴾ (الضحی: ۸) اللہ تعالیٰ نے تجھے عیال والا دیکھا اور غنی کر دیا۔ عائلا: کا ترجمہ ضرورت مند، محتاج کرنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ غنا اور فقر کا جتنا تعلق مادی اسباب و وسائل اور مال و متاع یا ساز و سامان سے ہے اس سے بڑھ کر اس کا تعلق قلب و دل سے ہے۔ اگر کسی کا سینہ ایمان سے کالی ہے تو وہ محتاج ہے اگرچہ اس کے پاس قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر اس کا سینہ ایمان سے معمور ہے تو وہ غنی ہے۔ (عبدالعزیز علوی) لوگ سمجھتے ہیں کہ فراوانی زر و مال سے غنی حاصل ہو جاتی ہے یہ غلط ہے۔ زر و مال کی کثرت ت وجوع البقری پیدا کر دیتی ہے اور کبھی غنا حاصل نہیں ہوتی۔ حدیث شریف میں ہے: اَلْغِنٰی غنی النفس غنی تو دل کے غنی کا نام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جس قدر غنا تھی وہ اس واقعہ سے ظاہر ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے پیغام بھیجا کہ اگر آپ چاہیں تو مکہ کے سب پہاڑ سیم و زر کے بنا دیے جائیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی کہ یہ تو میری ہرگز آرزو نہیں ۔ مجھے تو ایک روز روٹی مل جائے تاکہ وہ دن میرا شکر کے ساتھ بسر ہو اور ایک دن بھوکا رہوں تاکہ وہ دن دعا و التجا میں بسر ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو خاص بندوں کے لیے فراخی کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی مغنی ہے۔ وہ کاملین کو غنائے قلب عطا فرماتا ہے اور سائلین کو با مراد فرماتا ہے۔ امیر و فقیر سب کی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے۔
Flag Counter