’’اللہ مومنوں کا ولی ہے۔‘‘ مگر لفظ مولیٰ اس معنی میں زیادہ خاص ہے۔ یعنی مومن کو ولی کا خطاب تو ملا مگر مولیٰ کا خطاب نہیں ۔ یعنی قرآن مجید میں یہ نہیں آتا کہ مومن اللہ کے مولیٰ بھی ہیں بلکہ قرآن پاک میں ﴿فَاِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰہُ﴾ واقع ہوا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مولیٰ ہے اور مومنین کا بھی مولیٰ ہے۔ اس مثال سے معنی زیادہ صاف ہو جاتے ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ مولیٰ ہے اور وہی ہمارا کارساز ہے۔ اللہ تعالیٰ مولیٰ ہے اور اس نے کفار و مومنین کے درمیان عدمِ موالات کا حکم دیا ہے۔ ﴿لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران: ۲۸) ’’مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ۔‘‘ کمال ایمان یہی ہے کہ خود کو اللہ تعالیٰ کی تولیت میں سپرد کر دے۔ موالات و عدم موالات کا حصر مالک کی خوشنودی و رضوان پر رکھے۔ اَلنَّصِیْرُ ’’مددگار‘‘ نصر و نصرت بمعنی عون و مدد ہے۔ بندہ کی جانب سے اللہ کی نصرت اور اللہ کی جانب سے بندہ کی نصرت۔ لفظ نصرت کا اطلاق بہر دو جانب ہوا ہے۔ بندہ کی جانب سے اللہ کی نصرت: ﴿اِِنْ تَنصُرُوا اللّٰہَ یَنصُرْکُمْ﴾ (محمد: ۷) ’’تم اللہ کی نصرت کرو گے تو اللہ تمہاری نصرت کرے گا۔‘‘ ﴿کُوْنوا اَنصَارَ اللّٰہِ﴾ (الصف: ۱۴) ’’اے لوگو! اللہ کے انصار بن جاؤ۔‘‘ |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |