Maktaba Wahhabi

108 - 146
اب یاد رکھنا چاہیے کہ بندہ کی جانب سے اللہ کی نصرت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ والے بندوں میں باہمی نصرت و امداد قائم ہو جائے۔ ایک دوسرے کا کام بنانے میں باہمی امداد کریں ۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت، حدود الٰہی کی رعایت۔ پابندی احکام اور نفرت ازنواہی یہ سب نصرت کے معنی میں داخل ہیں ۔ یہ نصرت الٰہیہ کا نمونہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وصدیق رضی اللہ عنہ دونوں غار کے اندر ہیں ۔ کفار سر پر آگئے ہیں ۔ حتی کہ صدیق رضی اللہ عنہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو دیکھ رہے ہیں مگر ان دونوں کو دیکھنے سے سب کی آنکھیں کور ہیں ۔ ڈیڑھ ہزار فٹ کی بلندی کے پہاڑ پر تو سب چڑھ آئے ہیں ۔ مگر دس فٹ کی گہرائی کے غار کو کوئی بھی تاک جھانک کر نہیں دیکھتا۔ عنکبوت کا دامنِ غار پر جالاتن دینا خواہ روایۃً کیسا ہی ضعیف ہو مگر قدرتِ الٰہیہ کا خود ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دینا تو بالکل صحیح ہے۔ اور یہ معجزہ کی اعلیٰ قسم ہے۔ اوٹ کی چیز کا نظر نہ آنا معمولی بات ہے، مگر اوٹ نہ ہو اور صحیح نظر و تندرست آنکھ سامنے کی چیز کو نہ دیکھ سکے، نصرت الٰہی کی واضح مثال ہے۔ ﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا﴾ (النصر: ۱، ۲) ’’جب اللہ کی نصرت اور فتح پہنچی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا کہ اللہ کے دین میں سب ہی اقسام کے لوگ فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں ۔‘‘ بہت لوگ ہیں کہ نصرتِ الٰہیہ نے ان کو دربارِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر کر دیا تھا اور اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت وہ کام کرتی ہے جو زر و مال، قوتِ بازو، فکر وتدبیر سے ہرگز ہرگز پورے نہیں ہوسکتے۔ یہ نصرتِ الٰہیہ تھی جس نے شبِ تار میں اہل یثرب کے چند نفوس کو اقتباسِ انوار کا موقع عطا فرمایا اور وہ آئندہ کے لیے انصار اور ان کا شہر مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے مشہور ہوا۔
Flag Counter