ترمذی نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے اور روایت کو صحیح بتلایا ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو اس وقت کیا دعا کروں ۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھلائی: ((اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ)) ’’یا اللہ! تو عفو ہے۔ معافی دینا تجھے بہت پیارا ہے لہٰذا مجھے معاف فرما دے۔‘‘ اَلرَّؤُفُ ’’بہت بڑا مشفق‘‘ رأف، رأفۃ، رئُ وف، رآفۃ وریف (رأفًا) سے ہے۔ رافت وہ مہربانی جس کو اشد رحمت کے معنی میں لیا ہے اور بعض نے رحمت کو عام اور رافت کو خاص بتلایا ہے۔ کیونکہ رحمت کے معنی میں دفع ضرر کے علاوہ افضال و انعام بھی شامل ہیں ۔ قرآن مجید میں اسم رء وف ۹ مقامات پر آیا ہے۔ وہ مقامات میں رؤف بالعباد انفرادی حالت میں اور ۷ مقامات میں رء وف الرحیم مرکب حالت میں ہے۔ ﴿اِنَّ اللَّہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (البقرۃ: ۱۴۳) ’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘ ﴿وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌ بِالْعِبَادِ﴾ (البقرۃ: ۲۰۷) ’’اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑی شفقت کرنے والا ہے۔‘‘ ﴿اِنَّہٗ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبۃ: ۱۱۷) ’’بے شک وہ (اللہ) ان سب پر بہت شفیق اور مہربان ہے۔‘‘ ﴿اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (النحل: ۷) ’’یقینا تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے۔‘‘ لہٰذا رؤف الرحیم بھی رحمن الرحیم کے معنی میں برابر ہو جاتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ رحمن الرحیم اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہہ سکتے مگر ان ہر دو اسماء کا اطلاق مومنین کے تعلق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |