Maktaba Wahhabi

139 - 146
طاقت موجود ہے۔ یہ نام بھی بطور اسم قرآن مجید میں موجود نہیں ، بلکہ مشتق از فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مبدء و معید ماننا ضروری ہے۔ مبدء سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مادہ کا محتاج نہیں ۔ اس کو نمونہ اور مثال کی ضرورت نہیں اور معید سے ثابت ہے کہ اس کا علم اور قدرتِ کمال زبردست ہے۔ کفارِ عرب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی جس تعلیم سے تعجب اور انکار تھا وہ تعلیم یہی تھی۔ لہٰذا مومن کو واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اَلْمبدء، المعید تسلیم کرے۔ حشر اجساد پر ایمان رکھے اور سمجھ لے کہ اس بارہ میں جس قدر شکوک و اعتراضات ہیں وہ سب علم و قدرت انسان پر وارد ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا علم کامل اور قدرت تام ایسے اعتراضات کا محل نہیں ہوسکتا۔ اَلْوَاجِدُ ’’پانے والا‘‘ وَجَدَا وَجْدًا، وَجِدَۃً، وُجْدًا، وُجْدَانًا کے معنی دریافت ہیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ کا نام اس معنی میں نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں اس مصدر کے افعال آئے ہیں وہاں انسان فاعل ہے۔ اللہ تعالیٰ نہیں ۔ صاحب قاموس کہتا ہے: وَجَدَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی کہنا درست نہیں ۔ ہاں اَوْ جَدَہُ اللّٰہُ اللہ نے اسے مقصود پر پہنچایا کہہ سکتے ہیں ۔ اب یہ اسم وجود سے بن سکتا ہے۔ وجود کے معنی ہستی ہیں ۔ اس معنی میں بھی یہ اسم قرآن مجید میں نہیں آیا ہے ورنہ لفظ وجود کا استعمال قرآن پاک میں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لیے واجد ہے کہ وجودِ حقیقی اور ہستی مطلق اسی کو حاصل و زیبا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لیے واجد ہے، کہ جملہ موجودات پر اسے احاطت حاصل ہے۔ وہ واجد ہے اور جملہ مطلوبات و کمالات ذاتیہ کا وجود اسے ہمیشہ حاصل ہے۔
Flag Counter