Maktaba Wahhabi

400 - 413
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان [چلتے ہوئے] تشریف لائے اور اس وقت عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز ادا کررہے تھے۔ انہوں نے [سورۃ] النسآء پڑھنی شروع کی اور اس کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا۔ [قرأت سن کر] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو قرآن کو اسی طرح ترو تازہ پڑھنا چاہے، جیسا کہ نازل ہوا،تو وہ ابن اُمّ عبد [1]جیسی قراء ت سے پڑھے۔‘‘ پھر انہوں [ابن مسعود رضی اللہ عنہ ] نے دعا کرنی شروع کی،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے:’’ تم سوال کرو تمہیں عطا کیا جائے گا، تم سوال کرو تمہیں عطا کیا جائے گا،[ تم سوال کرو تمہیں عطا کیا جائے گا۔]‘‘ انہوں نے جو دعا کی تھی،اس میں یہ دعا بھی تھی:’’ اے اللہ! بے شک میں آپ سے [ایسے] ایمان کا سوال کرتا ہوں [جس کے بعد] ارتداد نہ ہو، اور [ایسی] نعمتوں کا [جو] ختم نہ ہوں اور آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی اعلی جنت میں رفاقت کا۔‘‘ انہوں نے بیان کیا:’’ عمر رضی اللہ عنہ بشارت دینے کے لیے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے، تو دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے سے تشریف فرماہیں۔ انہوں نے [ان کو دیکھ کر ]کہا:’’ اگر اپ نے ایسے کیا ہے [یعنی مجھ سے پہلے تشریف لائے ہیں تو اس میں چنداں تعجب نہیں کیونکہ آپ] تو نیکی میں بہت زیادہ سبقت کرنے والے ہیں۔‘‘ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان [جو قرآن کو اسی طرح ترو تازہ پڑھنا چاہے، جیسا کہ نازل ہوا ہے تو وہ ابن ام عبد رضی اللہ عنہما جیسی قرا ٔت سے پڑھے] کے ساتھ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تکریم و توقیر فرمائی۔
Flag Counter