Maktaba Wahhabi

344 - 413
[اس بات کا ذکر کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان [اس کو چھوڑ دو ] سے ارادہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے احکام کے بارے میں جو کچھ وہ نہیں جانتا تھا اس کو نرمی کے ساتھ سکھایا جائے ] لطف و شفقت کے ساتھ اس تعلیم کا اعرابی پر کیا اثر ہوا؟ اس سوال کا جواب اس روایت سے خوب واضح ہے،جس کو امام ابن ماجہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔انہوں نے بیان کیا کہ: ’’فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدَ أَنْ فَقِہَ:’’ فَقَامَ إِلَيَّ بِأَبِيْ وَأُمِّيْ! فَلَمْ یُؤَنِّبْ، وَلَمْ یَسُبَّ، فَقَالَ:’’ إِنَّ ھٰذَا الْمَسْجِدَ لَا یُبَالُ فِیْہِ وَ إِنَّمَا بُنِيَ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَلِلصَّلَاۃِ۔‘‘[1] ’’ اعرابی نے دین کی بات سمجھنے کے بعد کہا:’’ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر میری طرف تشریف لائے،میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! نہ آپ نے سرزنش کی اورنہ گالی دی۔ آپ نے فرمایا:’’یقینا اس مسجد میں پیشاب نہیں کیا جاتا، بے شک یہ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کے لیے بنائی گئی ہے۔‘‘ اللہ اکبر! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی بات لوگو ں کو بتلانے سے پیشتر اپنے ماں باپ آپ پر قربان کرنے کا اظہار کرتا ہے۔ اس کو کس بات نے اس مقام پر پہنچایا؟ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے شفقت اور نرمی کے ساتھ تعلیم مصطفویٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو لطف و شفقت اور نرمی و مہربانی سے تعلیم دیا کرتے تھے۔ البتہ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ بسا اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter