اسے چھوڑ دیتی تو وہ کچھ بیان کر دیتا۔‘‘ (مسلم) سیّدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ کے راستوں میں سے کسی راستہ میں ابن صیاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جناب ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی ملاقات ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایمان لایا اللہ پر اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا : میں نے پانی پر تخت دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے سمندر پر ابلیس کا تخت دیکھا ہے۔اور کیا دیکھا ؟ اس نے کہا : میں نے دو سچوں اور ایک جھوٹے یا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو دیکھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس پر اس کا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے، اس لیے اسے چھوڑ دو۔‘‘ (مسلم) سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’ہم حج یا عمرہ کرنے کی غرض سے چلے اور ابن صیاد ہمارے ساتھ تھا۔ ہم ایک جگہ اترے تو لوگ منتشر ہو گئے میں اور وہ باقی رہ گئے۔ اور مجھے اس سے سخت وحشت و خوف آیا ؛جو اس کے بارے میں کہا جاتا تھا۔ اور اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا۔ تو میں نے کہا گرمی سخت ہے ؛اگر تو اپنا سامان درخت کے نیچے رکھ دے تو بہتر ہے، پس اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں کچھ بکریاں دکھائی دیں ۔ وہ گیا اور ایک بھرا ہو پیالہ لے آیا۔ اور کہنے لگا: اے ابوسعید! پیو۔ میں نے کہا : گرمی بہت سخت ہے اور دودھ بھی گرم ہے۔دودھ کے ناپسند کرنے کے سوائے اس کے ہاتھ سے بچنے کی اور کوئی بات نہ تھی؛ یا کہا اس کے ہاتھ سے لینا ہی ناپسند تھا۔ تو اس نے کہا :اے ابوسعید !میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی لے کر درخت کے ساتھ لٹکاؤں ، پھر اپنا گلا گھونٹ لوں اس وجہ سے جو میرے بارے میں لوگ باتیں کرتے ہیں ۔ اے ابوسعید !جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مخفی ہے ان کی تو الگ بات ہے۔ اے انصار! کی |
Book Name | دنیا کا خاتمہ |
Writer | ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن العریفی |
Publisher | الفرقان پبلیکیشنز خان گڑھ |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شفیق الرحمن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 362 |
Introduction |