۸۴۔اہل روم کی کثرت اور اہل عرب کی قلت روم کو آج کل یورپ اور امریکا کہا جاتا ہے۔انہیں بنی اصفر بن روم بن عیصو بن اسحق بن ابراہیم کی طرف نسبت کی وجہ سے روم کہا جاتا ہے۔اور ان پر بنو اصفر کااطلاق بھی کیا جاتا ہے۔ مستورد فہری سے روایت ہے ،انہوں نے سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں کہا کہ’’ قیامت اس وقت قائم ہوگی جب نصاریٰ تمام لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔‘‘ تو جناب عمرو نے ان سے کہا: ’’غور کرو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’میں وہی کہتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔‘‘ جناب عمرو نے کہا: ’’اگر تو یہی کہتا ہے تو ان میں چار خصلتیں ہوں گی : ۱۔ وہ آزمائش کے وقت لوگوں میں سب سے زیادہ برباد ہوں گے۔ ۲۔ اور مصیبت کے بعد لوگوں میں سب سے زیادہ جلدی اس کا ازالہ کرنے والے ہوں گے ۳۔ اور لوگوں میں سے مسکین یتیم اور کمزور ہوں گے۔ ۴۔ اوریہ چوتھی خصلت نہایت عمدہ ہے کہ وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ باشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہوں گے۔‘‘ (مسلم) سیّدہ ام شریک رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لوگ دجال سے پہاڑوں کی طرف بھاگیں گے ۔ ام شریک نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! ان دنوں عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا: وہ بہت کم ہوں گے۔‘‘ (مسلم) یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ : رومیوں کا کثرت سے ہونا ان کی یورپی زبان، یعنی انگریزی کے عام ہوجانے اور پھیل جانے کی طرف اشارہ ہو۔ جس میں عربی زبان ترک کیے جانے کی ابتدا ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے : عربی وہ ہے جو عربی زبان میں بات کرتا ہو۔ اور اعرابی وہ ہے جو دیہات کا رہنے والا ہو، خواہ وہ عجمی ہی کیوں نہ ہو۔ |
Book Name | دنیا کا خاتمہ |
Writer | ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن العریفی |
Publisher | الفرقان پبلیکیشنز خان گڑھ |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شفیق الرحمن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 362 |
Introduction |