Maktaba Wahhabi

68 - 362
جائیں تویہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ آپ سے پوچھا گیا : یا رسول اللہ! یہ بھوکے فقیر کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’عرب۔ ‘‘ (مسند احمد ، البانی نے صحیح کہا ہے۔ ) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلندو بالا عمارتیں تعمیر کرنا حرام نہیں ہیں جب کہ ان میں لوگوں کا فائدہ ہو، اوریہ تکبر، فخر اور ایک دوسرے پر اترانے کے لیے نہ بنائی جائیں ۔ عمارتوں کے بنانے میں (تطاول) یعنی انہیں اونچا اور لمبا کرنااس وقت ممکن ہوگا جب بہت زیادہ منزلیں تعمیرکی جائیں اورانہیں اوپر اٹھایا جائے اور عمارتوں کو خوبصورت اور پائیدار بنایاجائے، گھروں کو وسیع کیا جائے اور ان میں مجالس اور مرافقین(ہم راہیوں و ہم نشینوں ) کی کثرت ہو۔ یہ تمام باتیں ہمارے زمانے میں اس وقت پیش آچکی ہیں جب کہ لوگوں کے پاس مال بہت زیادہ ہوچکا ہے ؛ اور ان پردنیا کے دروازے ہر طرح سے کھول دیے گئے ہیں ۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ بکریاں چرانے والے بادیہ نشین بادیہ چھوڑ دیں گے اور بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر پر توجہ دینے لگیں گے؛ اپنی عمارتوں اورگھروں ؛برج اور ٹاورز کی تعمیر پر ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے تکبر و فخر کا اظہار کریں گے۔ ان میں سے ہر ایک اس طرح تعمیرکرے گا کہ اس کی عمارت دوسرے کی عمارت سے بلند ہو۔ اونچی اونچی عمارتوں کا تعمیر کرنا آج کل عربوں میں اور غیرعربوں میں عام ہے۔ یہاں تک حکومتیں اونچی عمارتیں تعمیر کرنے میں آپس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے لگی ہیں ؛ اور اس میں ایک دوسرے پر فخر کا اظہار کرتی ہیں ۔ ۲۲۔صرف خاص لوگوں کو سلام کرنا اللہ تعالیٰ نے آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرنا اس لیے مشروع کیا ہے تاکہ آپس میں محبت اور تعلق کی ایک نشانی ہو۔ پس اس لیے سنت یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، مالدار غریب کو سلام کرے، اور عربی اور عجمی، کالا اور گورا آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں ، خواہ وہ ایک دوسرے کوجانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے، جب تک ایمان نہ لے آؤاور اس وقت تک ایمان
Flag Counter