عفان رضی اللہ عنہ کے قتل سے شروع ہوا۔ اور یہ لڑائیاں بغیر کسی تشفی بخش سبب کے روز بروز بڑھتی ہی رہیں ۔ جن کی بھینٹ ہزاروں لوگ چڑھ گئے۔ حتی کہ ہمارے اس دور میں جب کہ تباہ کن اسلحہ ایجاد ہوچکا ہے؛ جو کہ انتہائی خونریز معرکوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ( تو بم گرانے والے کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس کو اور کیوں مار رہا ہے، اور نہ ہی قتل ہونے والے کو علم ہوتا ہے کہ اسے کیوں قتل کیا جارہا ہے ۔) بعض جنگوں میں قتل ہونے والوں کی تعداد: ٭ پہلی عالمی جنگ میں ایک کروڑ پچاس لاکھ لوگ مارے گئے۔ ٭ دوسری عالمی جنگ میں ساڑھے پانچ کروڑ لوگ مارے گئے۔ ٭ ویت نام کی جنگ میں تیس لاکھ لوگ مارے گئے۔ ٭ روس کی داخلی سرد جنگ میں ایک کروڑ لوگ مارے گئے۔ ٭ اسپین کی جنگ میں ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ مارے گئے۔ ٭ ایران وعراق (پہلی خلیجی ) جنگ میں دس لاکھ لوگ مارے گئے۔ ٭ عراق پر امریکی حملے میں دس لاکھ لوگ مارے گئے۔ اگرچہ ان میں سے بعض جنگوں پر یہ حدیث صادق نہیں آتی کہ قاتل کو علم نہیں ہوگا کہ وہ کیوں قتل کررہا ہے۔ مگر پھر بھی میں نے یہ عدد اس لیے یہاں پر بیان کیا ہے تاکہ قتل و غارت پھیل جانے کا علم ہوسکے۔ ۱۷۔ امانت کا ضائع ہوجانا اوردلوں سے اس کا اٹھ جانا جب کسی مناسب کام پر مناسب آدمی کو مامور کیاجائے تو یہ امت کی بقاء کے لیے ایک ستون کا کام دیتا ہے۔ انسانوں اور ملکوں کی اصلاح اور معاشرتی ترقی اسی میں ہے۔ مگر جب امانت ضائع ہوجائیں توپیمانے الٹ( معیار |
Book Name | دنیا کا خاتمہ |
Writer | ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن العریفی |
Publisher | الفرقان پبلیکیشنز خان گڑھ |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شفیق الرحمن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 362 |
Introduction |