بدل ) جاتے ہیں ۔اور لوگوں کے راز تباہ ہوجاتے ہیں ۔ اور جب معاملات نا اہل آدمی کے سپرد کردیے جائیں تو افراتفری پھیل جاتی ہے، یہی وہ بات ہے جس کے پیش آنے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ امانت کا ضائع ہوجانا لوگوں میں فساد پیدا ہونے کا ایک سبب ہے۔ سیّدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا کہ: ’’امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتری، پھر قرآن نازل ہوا،سو ان لوگوں نے قرآن سے اس کا حکم جان لیا، پھر سنت سے جان لیا۔‘‘ پھر حضرت حذیفہ نے ہم سے اس کے اٹھ جانے کا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’ آدمی نیند سوئے گا اور امانت اس کے دل سے اٹھالی جائے گی اور اس کا ایک دھندلا سا نشان رہ جائے گا۔ پھر سوئے گا تو باقی امانت بھی اس کے دل سے نکال لی جائے گی۔ تو اس کانشان آبلہ کی طرح باقی رہے گا۔ جیسے چنگاری کو اپنے پاؤں سے لڑھکائے اور وہ پھول جائے اور تو اس کو ابھر ہوا دیکھے حالانکہ اس میں کوئی چیز نہیں ۔(پھر آپ نے کنکریاں لیں اور اپنی ٹانگ پر لڑھکا کر دیکھائیں ) پھر حالت یہ ہوگی کہ لوگ آپس میں خرید وفروخت کریں گے لیکن کوئی امانت کو ادا نہیں کرے گا یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کسی کے متعلق کہا جائے گا کہ کس قدر عاقل ہے کس قدر ظریف ہے اور کس قدر شجاع ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی بھر بھی ایمان نہ ہو۔‘‘ سیّدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’اور ہم پر ایک زمانہ ایسا گزرچکا ہے کہ کسی کے ہاتھ خرید و فروخت کرنے میں کچھ پرواہ نہ ہوتی تھی۔ اگر مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام اور نصرانی یا یہودی ہوتا تو اس کے مدد گار گمراہی سے باز رکھتے ؛ لیکن آج کل فلاں فلاں (یعنی خاص) لوگوں سے ہی خرید وفروخت کرتا ہوں ۔‘‘ ( متفق علیہ) جب لوگوں کے اکثریت سے اچھائیاں اور خوبیاں ختم ہوجائیں ، اورمعاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کیے جائیں ، امانت ضائع ہو جائے، تو قیامت قریب تر ہوگی۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کر رہے تھے کہ اسی حالت میں ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ |
Book Name | دنیا کا خاتمہ |
Writer | ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن العریفی |
Publisher | الفرقان پبلیکیشنز خان گڑھ |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شفیق الرحمن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 362 |
Introduction |