Maktaba Wahhabi

225 - 421
اس سلسلہ میں امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت نقل کی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار تھے۔ جب اسلام آیا تو مسلمانوں نے ان بازاروں میں تجارت کرنے کو گناہ سمجھا، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ زمانہ حج میں اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (بخاری: 1/275، سنن ابوداؤد: 1/242) اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ ایام حج میں تجارت کرنا، محنت مزدوری اور جائز طریقہ سے کسب معاش کرنا جائز ہے اور اس سے حج کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اگر حج کے دوران ضمناً تجارت یا محنت مزدوری ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اگر کوئی شخص بالقصد ایام حج میں تجارت کے لیے یا مزدوری کے لیے جائے اور ضمناً حج کر لے تو یہ اخلاص کے منافی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ محنت مزدوری ہی سے یہ دنیا آباد ہے اور اسی سے لوگوں کی ضروریات زندگی اور روزانہ کی حاجات پوری ہوتی ہے۔ چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل بکریاں چرانے کا کام کرتے تھے اور بعد ازیں آپ نے سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ کی رفاقت میں مضاربت پر سیدہ رضی اللہ عنہا کی تجارت کی۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ما من نبي الا رعي الغنم) (بخاری: 2/789، مسلم: 14/6، مسند احمد: 3/17) "دنیا میں کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔" سیدنا داؤد علیہ السلام لوہار کا کام کرتے تھے، اور سیدنا نوح علیہ السلام نجاری کا کام کرتے تھے اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام طبیب تھے۔ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ اس امت کے اکابر کا بھی کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش ضرور تھا، چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ بننے سے قبل پیشہ تجارت اختیار کیے ہوئے تھے، سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ لوہار تھے اور سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ خیاط
Flag Counter