Maktaba Wahhabi

155 - 421
صرف ایک ملک اور ایک چھوٹے سے رقبہ سے متعلق ہے اور وہ بھی جنگ عظیم سے قبل کا۔ خلاصہ یہ کہ اسلام میں اس قسم کے تمام تجارتی کاروبار کے لیے مطلق کوئی گنجائش نہیں جو صریح قمار اور جواہوں یا ان کی تہ میں مالی بڑھوتری کا وہی جذبہ کارفرما ہو جو قمار میں پایا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر قسم کی لاٹری بھی قمار میں داخل ہے جس کی کئی صورتیں بازاروں میں رائج ہیں۔ آج کل وبا کی طرح قمار کی ایک صورت معمول کی شکل میں عام ہو گئی ہے۔ بعض شہروں میں بچے اخروٹ اور کانچ کی گولیاں وغیرہ سے ہار جیت کرتے ہیں اور اس پر شرطیں لگاتے ہیں۔ یہ بھی قمار وغیرہ میں داخل ہے۔ آج کل تو کرکٹ اور دوسرے کھیلوں پر بھی شرطیں لگائی جاتی ہیں۔ یہ سب حرام ہیں اور اس میں کسی قسم کی اعانت بھی حرام ہے۔ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا: قرآن حکیم نے ایک ایسی اصطلاح استعمال کی ہے کہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا، اس کی رو سے ہر وہ مال لینے والے کے لیے ناجائز اور حرام ہے جو دوسرے سے غلط اور باطل طریق سے لیا جائے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے: (وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١٨٨﴾) (بقرہ: 188) "اور ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق کھاؤ اور نہ (بہ طور رشوت) وہ مال حاکموں کو دو تاکہ تم جان بوجھ کر لوگوں کا کچھ مال گناہ کے ساتھ کھاؤ۔" اس بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (لا يحل مال امرئ مسلم الا بطيبة نفس منه) (رواہ احمد: 5/72، تفسیر قرطبی: 12/314، مجمع الزوائد: 4/218) "کسی مسلمان کا مال دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے مگر طیب نفس
Flag Counter