Maktaba Wahhabi

102 - 421
اسلام انسان کے معاشرتی اور سماجی نظم کی بنیاد اس تصور پر رکھتا ہے کہ تمام دنیا کے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور اس لیے ان کے جملہ بنیادی حقوق میں کوئی امتیاز اور تفاوت بھی روا نہیں رکھا جا سکتا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان عرفات میں ایک جم غفیر کے سامنے یہ اعلان فرمایا تھا: "کسی عربی کو عجمی اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کی وجہ سے۔ تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔" (بخاری: 2/631، سیرۃ ابن ہشام: 2/201، عیون الاثر: 2/359) مساوات کا صحیح مفہوم: یہ تو ہر شخص کہتا ہے کہ اسلام میں مساوات ہے لیکن مساوات کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ عرف عام میں مساوات سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ تمام انسان ہر لحاظ سے برابر ہیں، لیکن یہ کہنا خلاف حقیقت ہے۔ تمام انسان ہر لحاظ سے قطعاً برابر نہیں ہیں، اللہ جل جلالہ نے ان کی طبیعتوں، صلاحیتوں، میلانات، رجحانات، رنگ و نسل اور فکرونظر میں فرق رکھا ہے۔ خود قرآن حکیم میں ہے: (هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ) (زمر: 9) "جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔" تاہم ان فطری اختلافات کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان مستقل نوعیت کی طبقہ بندی کا کوئی جواز نہیں کیونکہ ان کی پیدائش میں انسان کو اپنی کسی کوشش کا کوئی دخل نہیں، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر مسلمہ ہے کہ مساوات انسانی کا مسئلہ انسانی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے اور معاشروں اور سماجوں کے بناؤ اور بگاڑ میں اس کا فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ یونانی، رومی اور ہندی تمدنوں میں انسانی مساوات کا کوئی تصور موجود نہیں رہا۔ جدید سرمایہ دارانہ معیشت نے انسانوں کے مابین معاشرتی فرق کی بنیاد فراہم
Flag Counter