Maktaba Wahhabi

48 - 421
میں کچھ اور لوگ بھی اس کے شریک تھے بلکہ متعدد افراد کا قتل میں شریک ہونا ارتکاب جرم کے لیے ممدومعاون ہو جاتا ہے، اور ایسی صورت میں بالعموم جرم کا ارتکاب زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اسی طرح فرد واحد کو متعدد اشخاص کے قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور یہی سزا کافی ہے، اور قصاص کے علاوہ اور کوئی چیز از قسم مال واجب نہ ہو گی۔ اس کے دلائل علامہ کاسانی نے بدائع الصنائع 7/337 میں نقل کیے ہیں۔ نیز اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب "اسلام کا نظام عدل۔" چھوٹے بچوں اور جنین کے قتل کی حرمت: شریعت اسلامی نے ایک انسانی جان کو ہر قسم کا حق زیست یعنی زندہ رہنے کا حق دیا ہے اگرچہ وہ چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے: (وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ﴿٨﴾ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ﴿٩﴾) (تکویر: 8۔9) "اور زندہ گاڑھی ہوئی بیٹی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی۔" اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عرب میں رسم تھی کہ باپ اپنی بیٹی کو نہایت سنگ دلی اور بے رحمی سے زندہ زمین میں گاڑ دیتا تھا، بعض تو تنگ دستی اور شادی بیاہ کے اخراجات کے خوف سے یہ کام کرتے تھے اور بعض کو یہ عار تھی کہ ہم اپنی بیٹی جس کو دیں گے، وہ ہمارا داماد کہلائے گا۔ قرآن حکیم نے آگاہ کیا کہ ان مظلوم بچیوں کی نسبت بھی سوال ہو گا کہ کس گناہ پر ان کو قتل کیا تھا، یہ مت سمجھنا کہ ہماری اولاد ہے، اس میں ہم جو چاہیں تصرف کریں، بلکہ اولاد ہونے کی وجہ سے جرم اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔" (فوائد عثمانی: ص 779) بتایا یہ کہ ایک چھوٹی سے چھوٹی انسانی جان کو بھی اسلام نے اس دنیا میں زندگی گزارنے کا پورا پورا حق دیا ہے کیونکہ اس دنیا میں اس کو بھیجا ہی اس لیے گیا تھا کہ وہ دنیا
Flag Counter