Maktaba Wahhabi

141 - 421
پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے جو دوسروں کا مال چوری کرتا ہے اس کی سزا ہاتھ کاٹنا رکھی ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے: (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٣٨﴾) (مائدہ: 38) "چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کے (دائیں) ہاتھ کو کاٹ دو، یہ ان کے کیے ہونے کی سزا ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک تعبیر، اور اللہ بہت غالب اور نہایت حکمت والا ہے۔" چوری کی سزا سے معلوم ہوا کہ کسی دوسرے کی ملکیت میں تصرف کرنا حرام ہے، اور کسی شخص کو شریعت یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی ملکیت میں کسی قسم کا کوئی تصرف کرے۔ ایک حدیث میں فرمایا جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین غصب کرتا ہے، تو سات زمینیں قیامت کے روز اس کے گلے کا طوق بنا دی جائیں گی۔ (فتح الباری، رقم: 2452، مسلم مع نووی: 11/48) انسان کی ملکیت کے حصول پر قیود: اسلام نے اگر ایک انسان کی ملکیت کو تسلیم کیا ہے تو اس کے حصول پر کچھ حدود و قیود بھی لگا دی ہیں: 1۔ پہلی قید یہ ہے کہ جس چیز کا وہ مالک ہو رہا ہے وہ حرام نہ ہو بلکہ طیب اور طاہر ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نجاسات، شراب، خنزیر، خون، مردار اور جانور جو بتوں پر یا ان کے نام پر ذبح کیے جائیں، اور جو غیراللہ کے نام پر ذبح کیے جائیں یہ سب حرام ہیں اور لوگوں کا مال باطل طریق سے کھانا، بت اور ان کی قیمتیں، تصاویر اور ان کی قیمتیں ان سب کی تملیک حرام ہے۔ (ملاحظہ ہو مائدہ: 3، بقرہ: 188) 2۔ کسی شے کو اپنی ملکیت میں لینے کا طریقہ بھی جائز اور حلال ہو، اگرچہ وہ چیز بذات خود حلال ہو، لیکن اگر اس کا طریقہ تملیک صحیح نہیں تو وہ شے ملکیت
Flag Counter