Maktaba Wahhabi

53 - 421
مسلمان تلوار لے کر آمنے سامنے ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ قاتل کے جہنمی ہونے کی بات تو سمجھ میں آ گئی لیکن مقتول کا جہنمی ہونا کیوں ہے؟ فرمایا: وہ اس لیے کہ وہ بھی تو اپنے حریف کو قتل کرنے کا خواہش مند اور حریص تھا۔ (رواہ البخاری و مسلم و احمد و ابوداؤد والنسائی عن ابی بکرۃ، بخاری: 1/20، مسلم: 18/11، الفتح الکبیر: 1/87) اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، لیکن یہ نماز جنازہ نہ پڑھنا زجراً تھا جس طرح کہ آپ نے مقروض کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی کیونکہ دوسروں کی نماز آپ کی نماز کے برابر نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے کہ "آپ کی صلوٰۃ ان کے لیے باعث سکون ہے۔" اس سے علماء نے لکھا ہے کہ کسی بڑے عالم اور مفتی کو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ ایک عام مسلمان کو چاہیے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھا دے۔ ہر شخص کو اپنی جان کا دفاع کرنا چاہیے: ہر شخص کو اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جب کوئی اس کا خون بہانے اور اس کو مارنے کی کوشش کرے تو وہ اپنی جان کا دفاع کرے۔ یہ اس کا ایک بنیادی حق ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: (فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴿١٩٤﴾) (بقرہ: 194) "سو جو شخص تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ ان کے ساتھ ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔" اس آیت میں بتایا یہ کہ کفار نے تم کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے ان سے اتنا ہی
Flag Counter