Maktaba Wahhabi

87 - 421
منشور ہے جو آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس میں پہلی بار لوگوں کی جانوں، مالوں اور عزتوں کو اسلامی حکومت میں پورا پورا تحفظ دیا گیا۔ انسانی کاوشیں اس سے آگے آج تک نہیں سوچ سکیں۔ اس منشور سے ہٹ کر زندگی کا جو نقشہ بھی بنایا جائے گا، وہ سراسر غیر اسلامی اور غیر انسانی ہو گا۔ اس پورے خطبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: "اللهم هل بلغت" اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ہے، لہٰذا اے لوگو! جو اس وقت موجود ہو وہ ان لوگوں تک میرا پیغام پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔ پھر فرمایا "اے لوگو! میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔" (رواہ البخاری، کتاب المناسک: 2/631، مسلم، باب حجۃ النبی، فتح الباری: 8/103، 110، سیرۃ ابن ہشام: 2/601، 605، زاد المعاد: 1/218، 140، عیون الاثر لابن سید الناس: 2/359 وغیرہ) جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان کا مال لینا خواہ کسی صورت سے لیا گیا ہو، حرام قرار دیا گیا۔ مال لینے کی عام صورتیں چوری، ڈاکہ، فراڈ، رشوت اور دوسرے کئی طریقے ہیں۔ اسلام نے ان سب کو حرام قرار دیا ہے۔ چور کا ہاتھ کاٹنا: اسلام نے اس شخص کے لیے سخت سزا رکھی ہے جو کسی شخص کے مال پر زیادتی کر کے اس کو چھینتا ہے۔ چنانچہ چوری بھی ایک زیادتی ہے لہٰذا چور کی سزا شریعت نے ہاتھ کاٹنا رکھی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٣٨﴾) (المائدہ: 38) چوری کے معنی: چوری کو عربی زبان میں سرقہ (سین پر فتح اور راہ پر کسرہ) کہتے ہیں اور چوری کرنے والے کو سارق یعنی چور۔ اور اہل عرب سارق اس کو کہتے ہیں جو کسی محفوظ جگہ میں چھپ کر جائے اور مال وغیرہ لے کر چلا جائے۔ اگر وہ چھپ کر لینے کے بجائے کھلم کھلا
Flag Counter