Maktaba Wahhabi

158 - 421
یہ معاملہ باطل اور ظلم ہے۔ (وانما هو باطل و سحت) (حجۃ اللہ البالغہ: 2/103) 3۔ ایک اور بنیادی اصول اسلام نے تجارت کا یہ رکھا ہے کہ نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ کسی کو نقصان پہچانا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: "لا ضرر ولا ضرار" ان اصولوں کی روشنی میں اسلام نے کئی قسم کی خریدوفروخت کو جائز قرار نہیں دیا جیسے بیع ملامسہ، بیع منابذہ، دھوکہ کی بیع، بیع پر بیع کرنا، بیع بخش، تلقی جلب کی ممانعت، قبضہ سے قبل کسی چیز کی فروخت، مجہول ڈھیر کی بیع، ظہور صلاحیت سے قبل درختوں پر پھلوں کی بیع، ہنڈی کی بیع، حرام چیزوں کی خریدوفروخت جیسے کتے کی بیع، شراب، خنزیر اور بتوں اور تصاویر کی خریدوفروخت وغیرہ۔ 3۔ اپنی ملکیت میں تصرف کا طریقہ: اسلام نے اپنے حق ملکیت میں تصرف کرنے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کی ہیں، ان پابندیوں میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: اسراف و تبذیر: اگرچہ ہمارا مال ہماری ملکیت ہے لیکن اسلام نے اس کے خرچ کرنے پر دو پابندیاں لگائیں۔ ایک اسراف کی اور دوسری تبذیر کی۔ اسراف نام ہے ضروریات کی تکمیل کے لیے مقدار یا معیار کے اعتبار سے زائد از ضرورت مال صرف کرنے کا۔ سہولت، آرام اور زیب و زینت کے لیے مال صرف کرنا اسراف نہیں ہے بشرطیکہ اعتدال ملحوظ رکھا جائے۔ ارشاد خداوندی ہے: "کھاؤ، پیو اور اسراف نہ کرو، بےشک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔" (اعراف: 31) ایک اور مقام پر فرمایا کہ "اللہ کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔" (الفرقان: 27) قرآن حکیم نے اپنی جائز اور حلال کمائی کو خرچ کرنے کو دو شرطوں کے ساتھ
Flag Counter