Maktaba Wahhabi

170 - 421
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ایک اسلامی ریاست کی غرض و غایت ہی یہ بیان فرمائی: "یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر انہیں زمین میں اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، اور نیک کاموں کا حکم دیں گے اور برے کاموں سے روکیں گے، اور تمام امور کا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے۔" (حج: 41) زکوٰۃ کی اہمیت کے پیش نظر امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جس نے زکوٰۃ کے وجوب کا انکار کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی، لہٰذا اس کے کفر کا حکم دیا جائے گا۔" (المجموع: 5/234) (2) خراج: خراج کی عام لفظوں میں یہ تعریف ہے کہ خراج اس کرایہ کا نام ہے جو اسلامی ریاست اپنی مملوکہ زمین پر وصول کرتی ہے۔ (الخراج فی الدولۃ الاسلامیہ: 156) خراجی زمینیں وہ ہیں جن کے غیر مسلم مالکوں سے صلح کر لی گئی ہو یا جن کو بزور قوت فتح کرنے کے بعد خلیفہ نے ان کے سابق مالکوں کے قبضہ میں رہنے دیا ہو۔ ان زمینوں پر ان شرحوں کے مطابق محصول (خراج) وصول کیا جائے گا جو ازروئے معاہدہ طے پائی ہوں یا جو خلیفہ نے مقرر کر دی ہوں۔ (کتاب الاموال: 55، 68) کرایہ دار کی حیثیت عام کرایہ داروں جیسی بھی ہو سکتی ہے اور موروثی کاشتکاروں جیسی بھی۔ جو غیر مسلم کاشت کار اپنی زمینوں کے مالک نہ ہوں بلکہ اسلامی حکومت کی مملوکہ زمین پر کرایہ دار یا موروثی کاشت کار کی حیثیت سے کاشت کر رہے ہوں، ان سے حکومت اس زمین کا کرایہ وصول کرے گی جسے خراج کہا جاتا ہے، اس کرایہ کی کوئی شرح شریعت نے متعین نہیں کی ہے بلکہ مختلف زمانوں میں زمین کی کیفیت کے لحاظ سے حکومت خراج کی مختلف شرائط طے کر سکتی ہے۔ البتہ اس شرح کے تعین میں کاشت کار کی ضروریات اور زمین کی کیفیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
Flag Counter