Maktaba Wahhabi

70 - 421
ان احادیث کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جن میں زنا کی ممانعت اور مذمت کی گئی ہے۔ قذف: ایک انسان کی عزت و ناموس کو داغدار کرنے کے لیے اس پر تہمت لگانے والے کو بھی شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اور جس پر تہمت لگائی جائے اسے حق دیا ہے کہ وہ عدالت میں اس پر مقدمہ دائر کرے۔ قذف کا معنی ہے پتھر پھینکنا۔ چنانچہ عربی میں کہتے ہیں "قذف بالحجارة" یعنی اس نے پتھر پھینکا اور "قذف المحصنة" کا معنی ہے پاک دامن عورت کو زنا کی تہمت لگانا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ قذف کا معنی ہے گالی دینا۔ اصل میں "قذف" کا معنی ہے پھینکنا۔ پھر یہ لفظ گالی دینے اور زنا کی تہمت میں استعمال ہوا۔ (تاج العروس: 6/217) قذف کا شرعی معنی ہے کسی محصن (پاک دامن مسلمان مرد ہو یا عورت) کو زنا کی تہمت لگانا جس سے تہمت لگانے والے پر حد واجب ہو جاتی ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ قذف کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قذف پر حد کی سزا ہے اور دوسری قذف پر تعزیر ہے۔ جس قذف میں حد کی سزا ہے وہ وہ ہے جس میں کسی پاک دامن شخص یا عورت کو زنا سے منسوب کیا گیا ہو۔ یہ اس کے نسب سے نفی کی گئی ہے۔ اور جس قذف پر تعزیر ہے، وہ قذف وہ ہے جس میں کسی محصن یا غیر محصن کی جانب زنا اور نفی نسب کے کوئی اور بات منسوب کی گئی ہے۔ اس میں سب و شتم اور برا بھلا کہنا بھی شامل ہے۔ قذف کی حد کیوں ضروری ہے؟ قذف کی حد کے واجب ہونے کا سبب زنا کی تہمت ہے۔ چونکہ اس کی نسبت زنا سے ہے اور اس مقذوف (جس پر تہمت لگائی گئی ہو) کے لیے باعث ننگ و عار اور اس کی عزت و ناموس پر جارحانہ حملہ ہے لہٰذا مقذوف سے اس ننگ و عار کو دور کرنے اور اس کی پامال شدہ عزت و ناموس کو بحال کرنے کے لیے حد واجب کی گئی ہے۔ واللہ اعلم اسلام لوگوں کی عزت و آبرو اور ان کی شہرت اور شرف کا پاسبان اور نگہبان
Flag Counter