Maktaba Wahhabi

89 - 421
(اذا سرق السارق فاقطعوا يمينه من الكوع) (المغنی: 10/264) اس لیے کہ وہ اکثر اوقات اسی سے پکڑا جاتا ہے۔ ابتداء میں اس کے قطع کرنے سے چور کو چوری سے روکنا مدنظر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں یہی چوری کرنے کا آلہ ہوتا ہے۔ پس مناسب سمجھا گیا کہ اس کی سزا اس آلے کو ختم کرنا ہو۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اس پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ چور کا ہاتھ کاٹنے میں حکمت: علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے چور کا ہاتھ کاٹنے کی حد مقرر فرما کر مسلمانوں کے اموال کو محفوظ کر دیا، اور اگر کوئی شخص اچک کر کوئی چیز لے جائے یا لوٹ کر لے جائے یا غصب کرے تو اس پر حد مقرر نہیں (لیکن یہ بھی نہیں کہ اس کو چھوڑ دیا جائے بلکہ اس پر تعزیر ہے) کیونکہ یہ جرائم چوری کی بہ نسبت معمولی ہیں اور ان کے خلاف گواہ قائم کیے جا سکتے ہیں اور گواہوں کے ذریعہ عدالت آسانی سے اپنا حق وصول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس چور چھپ کر مال لے جاتا ہے لہٰذا اس پر گواہی قائم کرنا مشکل ہے اس لیے اس کی سزا سخت رکھی تاکہ اس کی سزا دیکھ کر دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں اور چوری کرنے سے باز رہیں اور اس طرح مسلمانوں کے مال محفوظ رہ سکیں۔ بعض علماء نے چوری کی سزا یعنی ہاتھ کاٹنا کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ چور جب چوری کا ارادہ کرتا ہے تو دراصل اپنی کمائی میں دوسرے کی کمائی سے اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی جائز کمائی کو کم اور قلیل سمجھ کر اس میں دوسرے کی کمائی ناجائز طور پر حاصل کر کے اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے نتیجہ عمل پر قانع نہ رہ کر دوسرے کے نتیجہ عمل پر اپنی نظریں جماتا ہے۔ وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتا ہے کہ زیادہ خرچ کر سکے۔ محنت و عمل سے بچ سکے اور اپنا مال خرچ کر کے اپنے کو زیادہ نمایاں کر سکے، گویا چوری کا اصل محرک زیادہ کمانا اور زیادہ دولت حاصل کرنا ہے۔ شریعت نے اس جذبہ کا مقابلہ قطع ید کی سزا مقرر کر کے کیا
Flag Counter