Maktaba Wahhabi

246 - 421
کھانے پینے کا حق انسان کے جو حقوق اسلام نے مقرر کیے ہیں ان میں ایک حق کھانے پینے کا بھی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے: (وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿٣١﴾) (الاعراف: 31) اس بارے میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کھانے اور پینے کو حلال فرمایا اور انسان کا حق بھی فرمایا جب تک کہ فضول خرچ نہ ہو اور تکبر نہ کرے۔ جتنی مقدار کھانے سے رمق حیات باقی رہ سکتی ہے اتنی مقدار کھانا پینا فرض ہے۔ رزق حلال کمانے اور بدنی عبادات انجام دینے کے لیے جتنی صحت اور توانائی کی ضرورت ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے جس قدر کھانے کی ضرورت ہے، اتنا کھانا بھی فرض ہے۔ صحت کے تحفظ کے لیے پرہیز کھانا اور نقصان دہ چیزوں کو ترک کرنا واجب اور ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے روزے رکھنے سے اس لیے منع فرمایا تاکہ رمضان کے فرض روزے رکھنے کے لیے آدمی کمزور نہ ہو جائے۔ اسی طرح عام مسلمانوں کو وصال کے روزے رکھنے سے روکا گیا تاکہ انسان لاغر اور کمزور نہ ہو جائے اور اس کی صحت برقرار رہے۔ جتنا کھانے سے انسان کی توانائی اور طاقت بحال رہتی ہے، اس سے کم کھانا کوئی نیکی نہیں اور نہ یہ کوئی زہدوتقویٰ ہے۔ لیکن بسیار خوری اور زیادہ کھانا بھی کوئی نیکی کا کام نہیں بلکہ ناجائز اور گناہ ہے اور اس کو قرآن نے فضول خرچی کہا ہے اور اس کی ممانعت کر دی (وَلَا تُسْرِفُوا) جیسا کہ گزشتہ سطور میں بتایا گیا ہے کہ
Flag Counter