Maktaba Wahhabi

317 - 421
اپنے نسب کے بارے میں عورت کا حق: موجودہ تہذیب میں جس کو اپنانے کے لئے مردوزن دیوانہ وار جدوجہد میں مصروف ہیں اس تہذیب نے عورت کی شخصیت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ جب وہ کنواری ہوتی ہے تو وہ مس فلاں کہلاتی ہے اور جب اس کی شادی ہو چکتی ہے تو اب مسز فلاں ہے۔ عورت کی اپنی شخصیت درمیان سے ختم ہو جاتی ہے بلکہ شادی کے بعد اس کی باپ کی شخصیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اسلام نے عورت کے نام اس کے قبیلے اور اس کے باپ کی بھی حفاظت کی اور اس طرح سے حفاظت کی کہ اس کی شخصیت کو قائم و دائم رکھا۔ آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ہی کو دیکھ لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد بھی ان کا انتساب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں ہوتا تھا حالانکہ آپ کی طرف منسوب کرنا ان کے لئے ایک نہایت باعث شرف چیز تھی۔ لیکن نکاح کے بعد بھی ان کے نام، ان کے باپوں کے نام اور ان کے قبائل کے نام اسلام میں ان کی شخصیت کے مقام کے پیش نظر محفوظ اور قائم رہے۔ چنانچہ ان کو اس طرح پکارا جاتا تھا عائشہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہ، سودہ بنت زمعہ، حفصہ بن عمر رضی اللہ عنہ، سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پکاری جاتی تھی حالانکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کی شادی ہو چکی تھی۔ اس سے پتہ چلا کہ اسلام نے ایک عورت کو ایک کامل شخصیت عطا فرمائی ہے۔ کسی کا ضمیمہ اور تتمہ نہیں بنایا۔ ان کا اپنا نام بھی باقی رکھا، ان کے باپوں اور قبیلوں کا نام بھی قائم رکھا یہاں تک کہ ان کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ عورت کا حق مہر: اسلام نے حق مہر کو عورت کی تکریم و تشریف کے لئے واجب اور ضروری قرار دیا، اور اس کو اس کی ملکیت قرار دیا اور یہ بتایا کہ حق مہر اس کو خوش دلی سے ادا کیا جائے، ڈنڈ سمجھ کر ادا نہ کیا جائے۔ اس میں زوجین میں الفت و محبت اور رحمت و مودت کے جذبات کی توثیق پائی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے: (وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ
Flag Counter