Maktaba Wahhabi

159 - 421
مشروط کر دیا۔ ایک "اسراف" اور دوسری "تبذیر۔" علامہ مادردی نے "اسراف" اور "تبذیر" کے باہمی فرق کو یوں بیان کیا ہے: "کمیت یعنی مقدار خرچ میں حد سے تجاوز کرنا "اسراف" ہے، اور یہ ثبوت ہے اس عائد شدہ حقوق کی مقدار سے جہالت کا جو اس کے ذمہ ہیں، اور کیفیت یعنی مواقع صرف میں حد سے تجاوز کا نام "تبذیر" ہے، اور یہ شہادت ہے ان موانع صرف سے نادان بننے کی جو صحیح اور حق مواقع ہیں۔" (روح المعانی: 15/59) ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لوگ ایسے مکان نہ بنانے لگیں جن کو وہ منقش کپڑوں کی مثل (آراستہ) کریں گے۔" (الادب المفرد، بخاری: ص 67) سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں گورنروں کو ایک خط لکھا تھا: (ان لا تطيلوا بنائكم فانه من شر ايامكم) (الادب المفرد: 66) "بلند و بالا عمارتیں نہ بناؤ کیونکہ یہ طرز زندگی بدترین زمانہ کی نشانی ہے۔" معلوم ہوا کہ اسراف کی ممانعت کا مقصد انسان کو صرفِ مال میں ایک معتدل اور متوازن زندگی پر قائم رکھنا ہے۔ اسراف کے تین مختلف پہلو ہیں۔ 1۔ مقدار یا وصف کے اعتبار سے حد اعتدال سے تجاوز 2۔ اہم ترین ضروریات کو نظرانداز کر کے غیر اہم امور پر مال خرچ کرنا 3۔ اجتماع کے عام معاشی حالات کے لحاظ سے فضول اخراجات۔ اسلام میں اسراف کی ان تینوں قسموں کی ممانعت کر دی گئی۔ اسلام اقتصاد اور میانہ روی اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے، مثلاً عام حالات میں خرچ آمدنی سے بڑھنا نہیں چاہیے۔ چنانچہ ارشاد نبوت ہے: (الاقتصاد في النفقه نصف المعيشة) (کنز العمال عن ابن عمر، مجمع الزوائد: 1/216)
Flag Counter