Maktaba Wahhabi

390 - 421
مہمان کے حقوق پیغمبر اسلام نے مہمان کے حقوق بھی بتائے کیوں کہ ہر انسان کسی نہ کسی وقت کسی کا مہمان ہوتا ہے۔اس لئے اسلام نے مہمان کے حقوق لوگوں کے ذہن نشین کرائے۔موجودہ نظام تمدن میں گو مہمانی کی خدمت ہوٹلوں اور ریسٹو رانوں کے ذریعہ کی جاتی ہے لیکن گزشتہ نظام تمدن میں مہمان کی ایک اہم جگہ تھی خصوصی طور پر اہل عرب میں مہمان کا بہت بڑا حق سمجھا جاتا تھا۔مہمان کی خدمت اور حفاظت میزبان اپنا فرض سمجھتا تھا۔ایک معمولی عرب جس کا کل اثاثہ اور کل کائنات ایک اونٹنی ہوتی،وہ اپنے مہمان کی خاطرو مدارت کے لئے اس کو ذبح کرنے کے لئے خوشی اور مسرت محسوس کرتا تاکہ وہ دل کھول کر اپنے مہمان کی مہمانداری کرسکے۔قبیلہ طے کا سردار حاتم جو دنیا میں اپنی سخاوت اور مہمان داری کی وجہ سے مشہور تھا،عرب ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں کہ حاتم سے کسی نے پوچھا:"کیا عرب میں کوئی آپ سے بھی بڑا سخی ہے؟"(هل في العرب اجود منك؟) اس نے کہا:"ہر عرب مجھ سے زیادہ سخی ہے۔" (السیرۃ النبویہ لابن کثیر:1/113) عبداللہ بن جدعان سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کا چچا زاد بھائی تھا۔اس کے پاس کھانے کا ایک بہت بڑا برتن ہوتا تھا جو ہر وقت کھانے سے بھرا رہتا تھا۔وہ اتنا بڑا تھا کہ ایک شتر سوار اپنے اونٹ پر بیٹھ کر اس میں سے کھانا لے سکتا تھا۔مہمان نوازی کی ضیافتوں کے بارہ میں ایک عورت فخریہ طور پر اپنے شوہر کی یہ خصوصیت بیان کرتی ہے۔"اس کے اونٹ ہر وقت اصطبل ہی میں موجود رہتے ہیں۔
Flag Counter