Maktaba Wahhabi

210 - 421
تاب سخن نہیں رکھتی، ایک لڑکے کا بادشاہ وقت سے ٹکرانا تو بہت بڑی بات تھی۔ محمد تغلق کو بچے کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا اور اس نے اسے چھڑی سے پیٹ ڈالا۔ لڑکا روتا ہوا عدالت میں پہنچا کیونکہ اس زمانہ میں وکیلوں اور فیسوں سے عدالت میں نہیں جایا جاتا تھا۔ قاضی القضاۃ کے پاس ہندوستان کے شہنشاہ محمد تغلق کے خلاف اس نے استغاثہ دائر کر دیا کہ اس نے مجھے ناجائز اور بے قصور پیٹا ہے۔ عدالت نے بادشاہ کے نام سمن جاری کر دئیے اور اس کو عدالت میں طلب کیا۔ محمد تغلق ایک ملزم کی حیثیت سے عدالت میں حاضر ہوا ور ملزموں کے کٹہرے میں آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے قاضی کے سامنے اپنا جرم تسلیم کر لیا۔ قاضی نے بادشاہ کو ایک روز کی مہلت دی اور کہا کہ کل تک اس لڑکے کو راضی کر لو ورنہ قصاص کے لیے تیار ہو جاؤ۔ محمد تغلق نے لڑکے کو راضی کرنے کے لیے بہت سا مال و زر دینا چاہا لیکن وہ کسی صورت رضامند نہ ہوا۔ دوسرے روز بادشاہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوا اور بچے کو راضی کرنے میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔ قاضی نے قصاص کا حکم جاری کر دیا۔ چنانچہ قاضی کے حکم سے لڑکے نے اس چھڑی سے جس سے بادشاہ نے اسے پیٹا تھا، بادشاہ کے جسم پر 21 بید مارے۔ بادشاہ نے نہایت صبروتحمل سے اس چھڑی کی ضربوں کو برداشت کیا اور اُف تک نہ کی۔ سزا کے بعد بادشاہ نے دو رکعت نفل شکرانہ ادا کی کہ حق تعالیٰ شانہ نے اسے عدل و انصاف پر ثابت قدم رکھا اور دنیا میں اس سے جو غلطی ہوئی تھی اس کی سزا اسے دنیا ہی میں مل گئی۔ اصل میں انسان بری الذمہ ہے: یہ ایک فقہی اور اصولی قاعدہ ہے کہ جرائم میں انسان بری الذمہ ہے۔ اس کو مجرم ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ (ملاحظہ ہو الاشباہ والنظائر للسیوطی: ص 39) اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (ادرؤوا الحدود بالشبهات، ان الامام أن يخطئ في العفو خير من ان يخطئ في العقوبة) (سنن الترمذی مع تحفۃ الاحوذی: 4/688، المستدرک: 4/383)
Flag Counter