Maktaba Wahhabi

231 - 421
دستہ ڈالا اور فرمایا: جا جنگل سے جا کر لکڑیاں کاٹ کر اس کو بازار میں فروخت کر، اور اب پندرہ روز تمہیں یہاں نہ دیکھوں۔ پندرہ روز کے بعد وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کے پاس کئی درہم تھے، بعض سے اس نے کپڑا خریدا ہوا تھا اور بعض سے گھر کے لیے کھانا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "یہ تیرے لیے مانگنے سے بہت بہتر ہے کیونکہ مانگنے کی وجہ سے قیامت کے روز تیرے منہ پر سیاہ دھبے ہوں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن المسألة لا تصلح إلا لذي فقر مدقع ، أو لذي غرم مفظع ، أو لذي دم موجع) "مانگنا جائز نہیں ہے مگر اس کے لیے جس کو خاک میں ملا دینی والی محتاجی ہو، یا تکلیف دینے والی قرض داری ہو یا پھر اس شخص کے لیے جو دوسرے کی جان بچانے کے لیے دیت کا ضامن ہوا ہو (یعنی اگر دیت ادا نہ ہو تو جس کا ضامن ہوا ہے وہ قتل کیا جائے گا اور اس کا قتل ہونا اس کو دردمند کر دے گا۔)" لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ آدمی روزی کمانے کے لیے اپنی پوری جدوجہد کرتا ہے لیکن اس کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں، اب اس صورت میں حکومت کے لیے واجب اور ضروری ہے کہ اس کی مالی امداد و اعانت کرے تاکہ وہ اپنی اور اپنے بال بچوں کی گزران کر سکے۔ اسی وجہ سے اسلام نے اہل مال کو اہل حاجت کو قرض حسنہ دینے کی ترغیب دی تاکہ وہ قرض کی رقم سے اپنی معیشت کے اسباب فراہم کر سکیں اور سوال کرنے اور مانگنے سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ اور اسلام نے قرض حسنہ کے ثواب کو صدقہ کے ثواب سے اٹھارہ گنا افضل قرار دیا ہے۔ اور اسی وجہ سے اسلام نے زکوٰۃ کے مصرف میں فقراء اور مساکین کا پہلے ذکر کیا ہے۔ اجرت کا تعین: اسلام نے اس بات کو بھی نہایت ضروری قرار دیا ہے کہ محنت کرنے والے سے
Flag Counter