Maktaba Wahhabi

73 - 421
لیکن دوسرے ائمہ کے نزدیک حد لگائی جائے گی کیونکہ ان کے ہاں لوطی پر حد ہے۔ سب و شتم: شریعت میں قذف اس کو کہتے ہیں کہ کوئی دوسرے کی طرف زنا کی نسبت کرے۔ نیز یہ کہ حد قذف کا اجراء چند شرائط پر موقوف ہے (جن کا تذکرہ ہم نے اپنی کتاب "اسلام کا نظام عدل" میں کیا ہے) لیکن بعض صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ مجرم جن جرائم کا ارتکاب کرتا ہے وہ حد قذف کے جرائم کی نوعیت کے نہیں رکھتے۔ چنانچہ مجرم مخاطب کو جو بات کہتا ہے وہ نہ تو قذف ہوتی ہے اور نہ وہ قذف سے ملتی جلتی ہے بلکہ وہ باتیں مخاطب کے لیے باعث اذیت ہوتی ہیں جیسے اگر کوئی شخص دوسرے کو کہے: "اے یہودی! یا اے یہودی کے بچے! یا اے زندیق! یا اے کافر! اور ان جیسی تمام صورتوں میں مجرم نے ایک مسلمان کو اذیت دی ہے، اور اس نے ناجائز طور پر اسے کفر کی جانب منسوب کیا ہے۔ ان امور کے بارے میں چونکہ شارع سے کوئی متعین سزا نہیں ہے لہٰذا مجرم تعزیری سزا کا مستوجب ہو گا۔ (ملاحظہ ہو شرح الکنز للعینی: 1/235، فتح القدیر: 4/211، الاحکام السلطانیہ: ص 218) اگر ایک شخص دوسرے سے کہے اے فاسق! یا اے فاسق کے بچے! یا کہے اے خبیث کے بچے! تو ان سب صورتوں میں اگر شخص متضرر ان باتوں سے بری اور پاک ہے جن کی نسبت اس کی طرف کی گئی ہے تو چونکہ ان باتوں سے اس کی عزت و آبرو مجروح ہوئی ہے اور اسے اذیت پہنچی ہے جو کہ ایک ایسی معصیت ہے جس میں گو متعین سزا نہیں لہٰذا مجرم تعزیری سزا کا مستحق ہو گا۔ (شرح الکنز عینی: 1/234، فتح القدیر: 4/213، فتاویٰ عالم گیری: 2/155، الجوہرۃ النیرۃ: 2/252، تبیین الحقائق: 3/208) اگر مجرم کے کہے ہوئے الفاظ ایسی صفات پر دلالت کرتے ہوں جو مخاطب میں فی الواقع موجود ہوں تو مجرم پر کوئی تعزیری سزا نہ ہو گی، کیونکہ ان الفاظ سے تعزیری سزا اس لیے دی جاتی ہے کہ مجرم کے الفاظ کی وجہ سے مخاطب کو ایذا پہنچتی ہے اور اس کی
Flag Counter