Maktaba Wahhabi

348 - 421
(ياابا عميرمافعل النغير) (رواہ الترمذی،رقم:1989) "اے ابو عمیر! ممولے نے کیاکیا۔" (یہ روایت بخاری:6120، 6203، مسلم:2150، مسند احمد:3/110، سنن کبریٰ بیہقی:5/203، ابن ماجہ، رقم:2520اور مصنف ابن ابی شیبہ:9/14میں بھی ہے۔) بچے کا حق پرورش: بچے کی پرورش، تربیت اور شریعت اسلامیہ کا شعور پیدا کرنے کے لئے اسلام نے اس کا حق حضانت بھی رکھا ۔وہ یہ ہے کہ جب تک والدین زندہ ہیں یا ان میں مفارقت اور جدائی کی کوئی دیوار کھڑی نہیں ہوئی تو بچے کی پرورش کے سب سے زیادہ حق دار وہی ہیں لیکن اگر ان کے درمیان طلاق کی وجہ سے مفارقت ہوگئی ہے تو سات سال کی عمر تک ماں بچے کی پرورش اور حضانت کی حق دار ہے اور سات سال کے بعد میاں بیوی کے درمیان جو فیصلہ ہو اس کے مطابق بچے کی پرورش اور تربیت ہوگی کیوں کہ شریعت نے حضانت اور پرورش کے لئے ایک بہترین نظام قائم کیا ہوا ہے جس کا ذکر کچھ تو قرآن حکیم سورۃ البقرہ:233 میں ہے اور کچھ احادیث نبویہ میں ذکر کیا گیا ہے۔چنانچہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سید الشہد اءسیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیدہ امامہ رضی اللہ عنہ کے بارہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے درمیان یہ تنازع ہوگیا کہ اس یتیم بچی کی کفالت کرنے کا میں زیادہ حق دار ہوں۔سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی دلیل یہ تھی کہ یہ میری چچا زادہ بہن ہے اور اس کی خالہ میری اہلیہ ہے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور سیدنا زید بن حارثہ کا دعویٰ رضی اللہ عنہ تھا کہ یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ یہ کیا کہ جعفر کے ہاں چونکہ اس کی خالہ ہے اور"الخالة بمنزلة الام" اور خالہ ماں جیسی ہے لہٰذاآپ نے کفالت کے لئے وہ بچی سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو دے دی۔ (رواہ ابو داؤد فی سنۃ :1/529،الفتح الربانی:17/65) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی عدم موجودگی میں خالہ حضانت اور
Flag Counter