Maktaba Wahhabi

337 - 421
حاصل کر۔ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔" (رواہ البخاری: 9/155۔166، مسلم، رقم: 1466، ریاض الصالحین، رقم: 364) ایک ماں اپنے خاندان کی روح رواں ہوتی ہے۔ اس کے وجود سے گھر کا تمام نظام قائم رہتا ہے۔ اگر ماں نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی تو خواہ سب افراد خاندان مل کر رہیں یا الگ الگ رہیں، اس خاندان کی ساکھ اور بھرم اور نظم و ضبط قائم و دائم رہتا ہے، اور یہ سب کچھ ایک دین دار عورت ہی صحیح معنوں میں کر سکتی ہے۔ دین دار عورت ہی نیک چلن، اطاعت گزار اور شوہر کی وفادار ہوتی ہے۔ جس سے مرد کی زندگی بھی خوش گوار گزرتی ہے اور آئندہ نسل کی اصلاح و تربیت کے لئے بھی وہ مفید اور موثر ثابت ہوتی ہے، جب کہ اس خوبی سے محروم دوسری تین قسم کی خواتین (مال دار، حسب و نسب والی اور حسین و جمیل) انسان کے لئے بالعموم زحمت اور اولاد کے لئے بگاڑ کا باعث ہوتی ہیں، اس لئے عورت کے انتخاب میں دین کو مقدم رکھنا چاہئے اگر ہم زندگی کی حقیقی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس بچے کا حق جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے: اسلام نے اس بچے کی بھی حفاظت کی ہے جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہے۔ چنانچہ کہا گیا کہ مرد کو اپنا نطفہ حلال رحم میں ڈالنا چاہئے۔ چنانچہ فرمایا گیا: (لَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٣٢﴾) (بنی اسرائیل: 32) "اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بےشک وہ بے حیائی اور برا راستہ ہے۔" اس آیت سے معلوم ہوا کہ زنا بہت برا کام ہے۔ اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ زنا نہ کرو، بلکہ یہ فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یعنی ایسا کوئی کام نہ کرو جو زنا کا محرک ہو اور زنا کا باعث اور سبب بنے۔ مثلاً اجنبی عورتوں سے تعلق قائم کرنا، ان سے خلوت میں ملاقات کرنا، ان سے ہنسی اور دل لگی کی باتیں کرنا اور ان سے ہاتھ ملانا اور ان سے بوس و کنار کرنا وغیرہ۔ اسی وجہ سے اسلام نے عورتوں کو پردہ میں رہنے کا حکم دیا اور عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول کو سختی سے روکا۔ جب یہ سب چیزیں نہ ہوں گی تو آدمی زنا
Flag Counter