Maktaba Wahhabi

398 - 421
فقراء اور مساکین کے حقوق دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں،اہل ثروت اور فقراء ومساکین،لیکن کبھی کبھی اہل ثروت کو بھی دوسروں کا دست نگر ہونا پڑتا ہے اور ان کو دوسروں سے مالی مددد لینی پڑتی ہے۔لہٰذا دولت والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ فقراء اور مساکین اور سائلین کی ہر طرح مدد کریں۔قرآن حکیم میں دوجگہوں پر فرمایا گیا: (وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ﴿١٩﴾)(زاریات:19) "ان کے مالوں میں حصہ تھا مانگنے والوں کا اور ہارے ہوؤں کا۔" (فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ﴿٢٤﴾ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ﴿٢٥﴾) (معارج: ) "اور جن کے مالوں میں حصہ مقرر ہے مانگنے والوں اور ہارے ہوؤں کا۔" سائل کا لفظی مطلب تو مانگنے والا،اور سوال کرنے والا ہے،لیکن سائل کے معنی صرف بھیک مانگنے کے لئے لینا درست نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ ضرورت مند ہوسکتا ہے جو تم سے مالی مدد کا خواہاں ہو اور محروم سے مراد وہ مصیبت زدہ ہے جس کی کمائی یا کھیتی پر کوئی آسمانی افتاد پڑگئی ہو اور اب وہ دوسروں کی مدد کا محتاج ہوگیا ہو۔ قرآن حکیم نے ہر طریقہ سے مسلمانوں میں اتفاق فی سبیل اللہ کی گرم جوشی پیدا کی۔پہلے تو اس نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ یہ مال جو تم محنت اور جدوجہد سے کماتے ہو،یہ تمہاری ملکیت نہیں بلکہ اس کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے تم اس مال کے امین
Flag Counter