Maktaba Wahhabi

203 - 421
اس سے حکومت کا مفاد متاثر نہ ہو۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سب سے پہلے انہوں نے عدالتی فرائض سے سبک دوش ہو کر یہ خدمت سید ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے سپرد فرما دی اور انہیں قاضی کے نام سے موسوم کر دیا کہ لوگ اگر مقدمات اور خصومات ان کے پاس لائیں تو ان کا فیصلہ کتاب و سنت اور اپنے اجتہاد کی روشنی میں کریں۔ بعض روایات میں ہے کہ جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگوں کے تنازعات اور خصومات کے فیصلے کریں اور جنگی امور سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ (سیرۃ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ لابن جوزی: باب 33 ص: 116) حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: "سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ہوتے ہی مدینہ کا قاضی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور ملک شام کے لیے اپنا نائب سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ (البدایہ والنہایہ: 7/162) قصاۃ کا انتخاب: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے جوہر شناسی کا ملکہ وسیعت فرمایا تھا، لیکن آپ نے قضاۃ کے انتخاب میں گورنروں کے انتخاب کی طرح بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ اپنی وہبی صلاحیتوں کا ثبوت دیا جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ خود فقہ و شریعت کے عالم تھے اور ان کی نظر اس قدر گہری تھی کہ اس وقت میں کوئی اور ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ آپ نے قاضی شریح کو کوفہ کا قاضی مقرر فرما دیا جہاں وہ ساٹھ برس تک اس منصب پر قائم رہے۔ کوفہ کا پہلے قاضی آپ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا جن کی قابلیت اور فقاہت بے مثال تھی۔ ان کی جلالت و عظمت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفہ کا قاضی اور معلم بنا کر بھیجا تو اہل کوفہ کو لکھا: "میں تمہاری طرف عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو علی الترتیب امیر اور معلم بنا کر بھیج رہا ہوں۔ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں اور اہل بدر میں سے بھی ہیں، لہٰذا تم (اپنے دائرہ
Flag Counter