Maktaba Wahhabi

165 - 421
سے ایک حق شفعہ ہے۔ اسلام نے پڑوسی کی ملکیت پر یہ قید لگا دی کہ اگر وہ اپنی کسی ملکیت کو فروخت کرے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے پڑوسی سے پوچھے۔ اگر اس نے پڑوسی کو فروخت سے قبل نہیں پوچھا تو شریعت نے پڑوسی کو شفعہ کا حق دیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (الجار احق بسقبه) (بخاری: 2258) "کیونکہ پڑوسی قریب ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ حق دار ہے۔" مصلحت عامہ کے تحت بعض ملکیت ختم کی جا سکتی ہے: اسلام یہ چاہتا ہے کہ زمینیں آباد ہوں اور مخلوق خدا کو رزق کی کوئی تنگی نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل تمام دنیا میں جاگیرداری اور زمین داری کا نظام رائج تھا۔ اس نظام کی وجہ سے زمین زمینداروں اور جاگیرداروں کے ایک محدود طبقہ میں سمٹ کر رہ گئی اور کاشت کاروں اور ہاریوں کا طبقہ جبروتحکم اور تشدد و استبداد کے شکنجہ میں جکڑا ہوا ہر قسم کے وحشیانہ مظالم برداشت کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس طبقہ کو زمین چھوڑ کر نہ دوسرا پیشہ تبدیل کرنے کا اختیار تھا اور نہ اپنے آقا سے سرخروئی کی امید۔ جبرواستبداد کی اس فضا میں اسلام ایک عالم گیر انقلاب کی شکل میں امانت و عدالت، افادیت و رحمت، اخوت و مساوات اور ایثار و قربانی کا پیغام لے کر "وادی غیر ذی زرع" میں نمودار ہوا، اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اس نے دنیا کی زہریلی ہواؤں کو نسیم سحر کے جھونکوں میں تبدیل کر دیا اور ایک ایسی فضا پیدا کر دی جس میں نہ تو ملکیت کی آڑ میں جورواستبداد کی گنجائش باقی رہ گئی اور نہ روٹی کی خاطر انسان غیراللہ کی غلامی پر مجبور رہا۔ اسلام میں جاگیریں تو ملتی ہیں جو لوگوں کو مفاد عامہ کے پیش نظر اسلامی ریاست کی طرف سے دی جاتی ہیں جن کو عربی میں "قطائع" کہتے ہیں، لیکن جاگیرداری نظام کو یک قلم ختم کیا کیونکہ جو جاگیریں اسلامی ریاست کی طرف سے دی جاتیں، ان کے انتظام کی دو صورتیں رائج تھیں: (1) کسی کو کاشت کے لیے زمین دی جاتی تھی اور وہ خود اس پر کاشت کرتا تھا۔
Flag Counter