Maktaba Wahhabi

17 - 421
العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ: "مجھے پتہ چلا ہے کہ تم دن میں مستقل طور پر روزہ رکھتے ہو اور رات کو نوافل پڑھتے ہو، کیا یہ صحیح ہے؟ انہوں نے عرض کی: "ہاں، یا رسول اللہ!" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، روزہ بھی رکھو اور کچھ دن روزہ نہ بھی رکھو، سوؤ بھی اور نوافل بھی پڑھو، تم پر تمہارے بدن کا بھی حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی حق ہے اور تمہارے مہمانوں اور ملاقات کرنے والوں کا بھی حق ہے۔" (مسلم، رقم: 1159، بخاری، رقم: 1975) معلوم ہوا کہ اسلام نے حقوق کو بہت وسعت دی ہے کہ نہ صرف کائنات ارضی کے حقوق انسان کے ذمہ ہیں بلکہ خود انسان کے وجود کے ہر عضو کا حق بھی اس کے ذمہ رکھا گیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے "( خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا)" کے تحت تمام چیزوں کو انسان کے لیے پیدا کیا ہے تو انسان کا فرض ہے کہ ان سے وہی کام لے جس کے لیے وہ وجود میں لائی گئی ہیں تاکہ وہ انسان کو صحیح فائدہ پہنچا سکیں۔ اس کی مثال حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی کہ ایک دفعہ ایک شخص بیل پر سوار جا رہا تھا کہ دفعتاً اس بیل نے منہ پھیر کر اس سوار سے کہا کہ میں تو سواری کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ میں تو کھیتی اور زراعت کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ (بخاری: 1/312) اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز جس مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے اس سے وہی کام لیا جائے، اگر اس کے علاوہ کوئی اور کام لیا گیا تو یہ اس چیز پر ظلم ہو گا۔ پھر اسلام نے ان حقوق کی درجہ بندی کی ہے۔ یہ درست ہے اسلام کے حقوق کا دائرہ انسانوں سے آگے جمادات تک جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص صرف اس لیے بخشا گیا کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا۔ لیکن اسلام نے حقوق و فرائض کو ہر انسان کے تعلقات کی کمی بیشی اور دورونزدیک کی ترتیب و تدریج کے ساتھ متعین کیا ہے اور ہر ایک کا درجہ الگ الگ کر دیا ہے، مثلاً ایک حیوان کے مقابلہ میں ایک انسان کی اعانت، ایک اجنبی کے مقابلہ میں ایک دوست کی اور غیروں اور بیگانوں کے مقابلہ میں عزیزوں اور
Flag Counter