Maktaba Wahhabi

16 - 421
ہدایات کی نافرمانی کرتے ہوئے کیے، لیکن بندے اتنے رحیم و کریم نہیں کہ وہ ان لوگوں کو معاف کر دیں جنہوں نے ان کے انسانی حقوق پر دنیا میں ڈاکہ ڈالا۔ وہ اس کا بدلہ ضرور لیں گے کیونکہ دنیا میں تو وہ بدلہ لینے کی ہمت اور استطاعت نہ رکھتے تھے لیکن آج تو احکم الحاکمین نے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے، لہٰذا وہ حقوق کو پامال کرنے والوں سے ضرور بدلہ لیں گے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس بھائی نے دوسرے بھائی پر کوئی ظلم کیا ہو تو اس ظالم بھائی کو چاہیے کہ اسی دنیا میں اس مظلوم بھائی سے اس کو معاف کرا لے، ورنہ وہاں تاوان ادا کرنے کے لیے کسی کے پاس کوئی درہم و دینار نہ ہو گا، صرف اعمال ہوں گے، ظالم کی نیکیاں مظلوم کو مل جائیں گی، اور اگر نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں ظالم کے نامہ اعمال میں لکھ دی جائیں گی"۔ (بخاری) اسلام میں ہر انسان پر دوسرے انسانوں بلکہ حیوانوں اور بے جان چیزوں تک کے حقوق رکھے گئے ہیں جنہیں ہر انسان کو اپنے امکان کے مطابق ادا کرنا ازحد ضروری قرار دیا گیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ انسان کو دنیا کی ہر اس چیز سے جس سے اس کا کچھ بھی تعلق ہے یا جس سے اس کو کچھ بھی نفع اور فائدہ پہنچتا ہے، اس تعلق اور فائدہ کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ترقی اور حفاظت میں کوشش کی جائے۔ اس شے سے وہ فائدہ اور نفع اٹھایا جائے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا۔ اس کو ہر اس پہلو سے بچایا اور محفوظ رکھا جائے جس سے اس کی نفع رسانی کو نقصان پہنچتا ہے۔ پھر یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ ان چیزوں کو ان مواقع پر صرف کیا جائے جہاں اللہ نے اس کے صرف کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس ذمہ داری کا نام شریعت کی اصطلاح میں حق ہے۔ جس کو ادا کرنا ازحد ضروری ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ انہی معنوں میں کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ چونکہ انسان کا تعلق پوری کائنات سے ہے اور اس کائنات ارضی کی ہر چیز سے وہ نفع حاصل کرتا ہے، لہٰذا اس کی ذمہ داری بھی اس کی ہر چیز سے متعلق ہے۔ جمادات، نباتات، حیوانات اور انسانوں کو بے سبب کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے اور ان کے ہر قسم کے آرام و آسائش کا خیال رکھا جائے، بلکہ اسلام میں تو خود انسان کے ہر ہر عضو کا اس پر حق رکھا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن
Flag Counter