Maktaba Wahhabi

144 - 453
لوگوں کو جو لوگ تجسس میں آکر دوسروں کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور ایسے اوقات غفلت کا انتخاب کرتے ہیں جن میں انہیں کوئی ایسی منظر کشی کرنی ہو جو ان کے لئے حلال نہ ہو اور نہ ہی انہیں زیب دیتا ہو اور وہ کسی گناہ کی ٹوہ میں لگے رہتے ہوں ۔ 8 الفاظ استئذان آداب استئذان سے متعلق ایک اور ادب جس کا شریعت نے لحاظ رکھا اور وہ اجازت لینے کے الفاظ ہیں عرب میں جاہلیت کے دور میں بھی اجازت لینے کا رواج تھا مگر وہ حسب نسب اور بادشاہ و رعایہ کے نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا چنانچہ جب اسلام نے اپنا نور پھیلانا شروع کیا تو استئذان کے جامع اور مانع آداب امت کو سکھلادئے ۔ استئذان کے طریقے کے لئے قرآن نے جو الفاظ استعما ل کئے وہ ہیں: [حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ][النور:27] ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔ مفسرین کا اس بات پر اختلاف رہا ہے کہ پہلے سلام کیا جائے یا پھر اجازت طلب کی جائے؟ بعض علماءنے پہلے اجازت طلب کرنا اور پھر سلام کرنا مناسب سمجھا اس کا سبب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : [حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ]اور اکثر نے عکس مناسب قرار دیا اور پہلے سلام اور پھر اجازت لینا راجح قرار دیا اور ایک قاعدہ تقدیم و تاخیر کو بنیاد بنایا اور اس کی تقدیرٹھہرائی : [حَتّٰى تُسَلِّمُوْا عَلٰى أَهْلِهَا وَتَسْتَأْذِنُوْا] سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مصحف میں یہی ترتیب ہے ۔[1] سیدنا کَلَدَۃبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا نہ میں نے سلام کیا اور نہ اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے واپس جانے کا حکم دیا اور کہا کہ سلام کرو اور
Flag Counter