’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے چمٹ گئے اور آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا‘‘ اسلام میں پرائیویسی کا تصور: اسلام ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم کسی کے کمرے میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہوں۔ قرآن مجید میں ہے: [يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ][النور27] ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو ۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔‘‘ انسان کبھی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ پسند نہیں کرتا کہ دوسروں کی نگاہ اس پر پڑے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صرف اجازت لینے ہی کی تلقین نہیں کی بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی کے ہاں جاؤ، تو دروازے کے سامنے کھڑے نہ ہوا کرو۔ دروازے سے ہٹ کر دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہونا چاہیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر کھڑے ہونے کے آداب بھی صحت متعین فرمائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے مستقل باب باندھا: ’’بابٌ کیف یقوم عند الباب‘‘ یعنی انسان دروازے پر کس طرح کھڑا ہو؟ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں سے اندر جھانکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک کنگھے سے اپنا سر مبارک کھجارہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو یہ کنگھا تمہاری آنکھ میں چبھودیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انما جعل الإستئذان من اجل البصر‘‘ [1] ’’اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لئے دیا ہے کہ اندر نگاہ نہ پڑے‘‘ یعنی جب تم اندر دیکھ رہے ہو تو اس سے میری پرائیویسی میں تم نے خلل ڈال دیا ہے، اب |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |