Maktaba Wahhabi

154 - 453
شاگردراوی کہتے ہیں : ’’کان یشتری الطعام جزافا فیحملہ الی اھلہ‘‘ [1] یعنی : وہ چیز خریدتے اور خود اس چیز کو اٹھاکر اپنے اہل کی طرف منتقل کرتے۔ شیخ صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے اس طرزِ عمل پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں : اما ما کان یفعلہ ابن عمر من نقل الطعام الی اھلہ فکان من غایۃ التزامہ و تمسکہ بلفظ الحدیث[2] یعنی رہا عبد اللہ بن عمر کا بذاتِ خود طعام (سامان)کو بازار سے اہل کی طرف منتقل کرنا تو یہ ان کی طرف سے الفاظِ حدیث کے ساتھ غایت درجہ کا التزام و تمسک تھا ۔ اسی طرح صحیح مسلم ہی میں ایک اور حدیثِ مبارک ہے جس میں بیع کو پختہ کرنے کیلئے خریدار اور فروخت کرنے والے کو ایک دوسرے سے جدا ہو جانے کی شرط کا ذکر ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بازار میں اس حدیث پر کس طرح عمل کرتے ؟ ملاحظہ ہو : ’’ فکان اذا بایع رجلا فاراد ان لا یقیلہ قام فمشیٰ ھنیئۃ ثم رجع الیہ‘‘[3] یعنی : عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی سے بیع کر لیتے اور اس بیع کو پختہ کرنے کا ارادہ کرتے اور چاہتے کہ وہ شخص بیع فسخ نہ کرے تو وہاں سے اٹھتے تھوڑا آگے چلے جاتے پھر واپس اس شخص کی طرف لوٹ آتے۔ قارئین کرام ! یہ تھی قرونِ اولیٰ کے بازار کی ایک جھلک کہ وہاں کس قدر احکامِ دینیہ نافذ تھےاور اس دور کے لوگ کس ذوق و شوق سے بازار ہی میں ان احکام پر عمل کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہاں نہ دھوکہ ، فریب کا ڈر تھا نہ لوٹ مار کا خوف ۔ اب آئیے ذراعصر حاضر کے بازار کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے۔
Flag Counter