جائےیہ میت کے مال سے ادا کیا جائے گا اور اگر میت کوئی مال نہ چھوڑے یا قرض سے کم چھوڑے تو باقی ماندہ قرضہ کی ادائیگی ورثاء پر ہے۔ میت کی وصیت کا لاگو کرنا تقسیم وراثت سے قبل ایک اہم معاملہ میت کی وصیت کا بھی ہےکہ اسے بھی لاگو کیا جائے۔ اور اس کے لاگو کرنے کے حوالے سے بھی شریعت کے بیان کردہ ضوابط اپنے اندر عدل والی امتیازیت سموئے ہوئے ہیں۔ وصیت کے احکام ابتدائی دور میں وصیت فرض تھی ،وراثت کے تفصیلی احکام آجانے کے بعد اب اس کا حکم استحبابی ہے۔ ایک تہائی سے زائد میں وصیت جائز نہیں۔جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں اس قدر بیمار ہوگیا کہ موت کو جھانکنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے آئے میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: نصف؟ فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: ایک تہائی ؟ فرمایا: ہاںایک تہائی ، ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہی ہے۔ تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کرجائے یہ بہتر ہےاس سے کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنےہاتھ پھیلائیں۔ [1]اگر ایک تہائی سے زائد پر وصیت ہوگی تو ورثاء زائد کے بارے میں حق رکھتے ہیں کہ اسے نافذ نہ کریں۔ وصیت وارث کے بارے میں کرناجائز نہیں۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ پس وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں۔[2]اگرایسی وصیت کی گئی تو وہ نافذ نہیںہوگی۔ پہلے قرض کو ادا کیا جائے گا پھر وصیت کا نفاذ ہوگا۔ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |