موجود رہتے ہیں ، تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر عدت کے دن گذارو ، وہ نابین ہے اور تم وہاں اپنے کپڑے بھی اتار سکتی ہو( کیونکہ وہ نابین ہے) اور جب عدت کے دن ختم ہوں تو مجھے بتانا۔ فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کے عدت ختم ہونے پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا اور کہا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابو جہم کی طرف سے نکاح کا پیغام آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں تک ابو جہم کا تعلق ہے تو وہ اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتا ( یعنی بیویوں کی مار پٹائی زیادہ کرتا ہے) اور معاویہ مفلس ہے۔ تم اسامہ بن زید سے شادی کرو ، میں نے اس بات کو ناپسند کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔ پھر میں نے ان سے نکاح کر لیا اور اللہ نے اس قدر خیر و برکت کی کہ دوسری عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں۔[1] علامہ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب فاطمہ بنت قیس کا نکاح اسامہ بن زید سے کرایا تو وہ اس وقت 15 سال کے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں انہیں اولاد بھی ہوئی ۔ جس طرح حافظ ابو الفضل عراقی نے شرح الاحکام میں یقین سے کہا ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ، اس وقت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ 19 سال کے تھے۔[2] امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ(وفات: 463ھ) لکھتے ہیں: ضحاک بن قیس ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے 6 سال قبل پیدا ہوا ئے، وہ فاطمہ بنت قیس کے بھائی تھے اور بہن بھائی سے عمر میں دس سال بڑی تھیں۔ [3] اس حساب سے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ضحاک بن قیس کی عمر 6 سال تھی تو پھر فاطمہ بنت قیس کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت 16 سال ہی ہوگی اور اسامہ بن زید کی عمر 19 سال۔ اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس کی شادی اسامہ بن زید سے کرائی تھی |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |