انہوں نے صنعتی تعلیم کی تحریک و تجویز کی سخت مخالفت کی اور اس موضوع پر سخت اور تلخ مضامین لکھے اس سلسلہ کا آخری مضمون وہ تھا جو 19 فروری1898 میں انہوں نے علی گڑھ گزٹ میں شائع کروایا جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کی موجودہ حالت کے لحاظ سے عملی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سب سے مقدم و اعلیٰ درجہ کی دماغی تعلیم کی ضرورت ہے جو اب تک بالکل پورے طور پر پوری نہیں ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اسلامی ادارہ خالص علمی و ادبی رجحان کے ساتھ آگے بڑھا اور مغربی تمدن کی تقلید کا ذوق اور انگریزی ادبیات میں کمال حاصل کرنے کا شوق اس کے ذہین اور حوصلہ مند طلباء پر غالب رہا ۔ اس نے انگریزی کے بعض اچھے مقرر ، صاحب قلم پیدا کیے لیکن قدرتی طور پر ریاضی ، طبیعات ، کیمسٹری ، ٹکنالوجی اور صنعتی علوم میں جن کی اسلامی ہندکو سخت ضرورت تھی ممتاز شخصیتیں اور غیر معمولی افراد پیدا نہ ہوسکے اور اس کی وجہ سے اس کا دائرہ اثر سرکاری ملازمتوں اور معمولی انتظامی اداروں تک محدود رہا ۔ مصر میں طہٰ حسین کی مغربیت اور اس کی طرف دعوت جس طرح مصطفیٰ کمال نے قوت کے ذریعے سے ترکی کو ایک مغربی اور سیکولر اسٹیٹ بنایا اور سرسید احمد خان نے علی گڑ ھ کی بنیاد رکھ کرتغریب کی ایک فیکٹری بنائی اور برصغیر کے نوجوانوں کو مغربیت کی ترغیب دی جس کے اثرات ہم اب تک بھگت رہے ہیں اسی طرح ڈاکٹر طہ حسین نے مصری قوم کو مغربی ثقافت کو اختیار کرنے کی دعوت اور ترغیب دی اور اپنی عمر اور تحریروںکو اس میں صرف کیا ۔ وہ اپنے مشہور کتاب’’ مستقبل الثقافۃ فی مصر‘‘ میں کہتے ہیں: ’’ہمیں اہلِ یورپ کے طریقے پر چلنا چاہیے اور ان کی سیرت و عادات اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کے برابر ہوسکیں اور تہذیب کے خیر و شر ، تلخ و شیریں ، پسندیدہ و ناپسندیدہ ہر چیز میں ان کے رفیق کار اور شریک حال ہوسکیں ‘‘ ’’ہم ایک یورپین کو باور کرادیں کہ اشیاء کو ہم اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے ایک یورپین دیکھتا ہے ۔ ان کی وہی قدرو قیمت ہماری نظر میں ہے جو اس کی نظر میں ہے ۔ ان کے متعلق وہی رائے قائم کرتے ہیں جو ایک مغربی کرتا ہے ۔‘‘ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |