Maktaba Wahhabi

23 - 453
کسی کی ذات میں عیب نکالتی ہے ۔۔۔۔اس کے سوا مزاجوں کا وہ حال ہے کہ جو ذرا سی تیز مزاج ہیں وہ تو چلتی ہوا سے لڑتی ہیں۔ بات اس طرح کرتی ہیں جیسے کسی نے پتھر دے مارا ۔ میاں سے بات بات میں اُڑنیچ نکالنی ۔ بچّوں کو خواہی نخواہی کوسنا ۔ نوکروں سے ناحق الجھنا۔‘‘ اس وقت معاشرے کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے تاکہ وہ آئندہ نسلوں کی مربیہ بنیں اور قوم فتنوں سے محفوظ رہ سکے۔ بے جا تکلفات کا در آنا الغرض ہمارا معاشرہ اس وقت ہندستانی فرسودہ روایات اور مغربی تہذیب کا چربہ بن چکا ہے۔جسے ہم زوال کہیں گے عروج نہیں کیونکہ زوال پذیر معاشرے کی سب سے بڑی پہچان اُس کے فرسودہ رسم ورواج ہوتے ہیں جو سارے کے سارے بے تکے ، فضول اور جہالت کی کھلی دلیل ہوتے ہیں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان میں نئی نئی شاخیں پھوٹتی رہتی ہیں اور لوگوں کی زندگیاں الجھن میں مبتلا ہوتی رہتی ہیں ۔ اور زندگی ایک عذاب جیسی بن جاتی ہے ایسی ہی زندگی کا نقشہ ’’ رفاہ اخلاق ‘‘ کے مصنف نے بہت بہترین انداز سے کھینچا ہےیہ کتاب انیسویں صدی کےا ختتام پر لکھی گئی اس لئے اس میں قدیم ہندی طرز کے جملے ہیں جو بظاہر کچھ ثقیل مگر ہیں بہت دلچسپ اقتباس ملاحظہ کیجئے ۔ لکھتے ہیں :’’ اکثر ہندوستانی آدمی اپنی پابندئ رسومِ آبائی سے ایسی آفت ومصیبت میں گرفتار ہیں کہ جس کے سبب سے تھوڑی سی عمرِ شیریں ان کی تلخ ہو گئی ہے ۔جو رسمیں اور طریقے شرعا وعقلا ناجائز ہیں ان کو فرض وواجب سمجھ لیا گیاہے ۔ پاس ہو نہ ہو قرض لیں گے ، ادھار کریں گے ، چاہے عزت میں بٹّہ لگے۔ جیلخانہ جانے کی نوبت آئے مگر ضرور فرض ادا ہوجائے ۔ اس میں فرق نہ پڑنے پائے ۔ یہاں لڑکا کیا پیدا ہوتاہے آفت کا سامان ہوتاہے ۔ اپنے پرائے کی بن آتی ہے ۔ بے وقوف بنابنا کر خوب اڑاتے ہیں ۔ بہنیں جدی منزلوں سے نیگ مانگنے آتی ہیں۔ پھوپھیاں علیحدہ کوسوں سے اپنا حق لینے کو پہنچتی ہیں ۔ ہم کرتہ ٹوپی لائے ہیں ۔ برسوں کی آرزو ہے ۔ اب خدا نے یہ دن دکھائے ہیں ۔ ہمارا حق دینا چاہیے۔ بہت دنوں سے چپکے بیٹھے رہے ۔ اب نہ دو گے تو پھر ہمارا کون سا دن ہوگا ۔ اب لیجیے ، سواریوں کا جدا کرایہ دینا پڑتاہے ۔ مہمان داری میں جدا بہت کچھ صرف ہوتاہے ۔ پھر واپسی کے دن
Flag Counter