اس کے ورثاء میں سے ان افراد کو نہیں دیتے تھے جودشمن سے جنگ وغیرہ میں قتال نہ کرسکتے ہوں۔ جیساکہ چھوٹے بچے اور عورتیں۔ذریت کو چھوڑ کر مقاتلین میںتقسیم کردیا کرتے تھے۔ (گویاکہ کمزور طبقہ محروم ہوجاتا تھا)اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس سورت کے آخر میں میت جو ورثاء چھوڑ کر جائے ان کے نام لے کر ان کے حصوں کو فرض کردیا۔میت کے چھوٹے،بڑے بچوں اور بچیوں کے لئے بھی ان کے والد کی وراثت سے حصہ مقرر کیا،جب ان کے علاوہ کوئی اور وارث نہ ہو،تو مذکر کو مؤنث کی بہ نسبت دگنا ملے گا۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ بھی مقرر کردیا البتہ دونوں کے حصوں میں فرق رکھا، اس لئے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں، مثلاً: اپنے متعلقین کے کھانے پینے، اخراجات کی کفالت، تجارت اور کسب اور اسی طرح کی دیگرمشقتیں ۔تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دوگنا دلوایا۔‘‘[1] بہرحال ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ اہل جاہلیت میں تقسیم وراثت کا نظام سراسر ظلم پر مبنی تھا،جسے اسلام نے ختم کیا اور مکمل طور پر ایک عادلانہ نظام وضع کیا ،جو کمزور سے کمزور طبقے کو اس کا وہ حق دیتا ہے،جس کا وہ مستحق ہے۔ یہودیت اور وراثت یہودیت جوکہ وہ دین ہے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا، چونکہ یہ عالمگیر اور دائمی دین نہیں تھا، لہذا اس مذہب میں موجود ضوابط کا تعلق بھی ایک خاص وقت سے تھا،اور مزید یہ کہ آج وہ اپنی اصل حالت میں موجود بھی نہیں کیونکہ اس میں بہت زیادہ تحریفات ہوچکی ہیں۔بہرحال عہد نامہ قدیم کے مطابق یہودیت جو نظام دے رہی ہے وہ غیر عادلانہ اور نامکمل ہے،جیساکہ گنتی : باب 27فقرہ نمبر 1تا11 میں یہ بیان ہوا ہے: |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |