Maktaba Wahhabi

112 - 453
شخصیت ادھوری اور آپ کا دین بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ بقولِ مولانا آزاد رحمہ اللہ ’’ادھوری سچائیاں ہمیشہ خطرناک ہوتی ہیں۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا، جس میں مدعی کے پاس دو گواہ تھے، ایک گواہ کے بارے میں تو انہیں علم تھا کہ وہ قابلِ اعتماد ہے، لیکن دوسرے گواہ کی ثقاہت کا انہیں معلوم نہیں تھا۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا: تم میں سے کوئی شخص گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص قابلِ اعتماد ہے؟ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ثقہ آدمی ہے۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’تجھے کیسے معلوم ہوا کہ یہ قابلِ اعتماد ہے‘‘ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ھل جاورتہ ام صحبت معہ فی السفر الذی یسفر عن الحقیقۃ ام عقدت معہ عقداً‘‘ ’’کیا تو اس کے پڑوس میں رہا ہے؟ یا اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ جو انسان کی قلعی کھول دیتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی کاروباری معاملہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا’’ ان میں سے تو کوئی بات نہیں‘‘ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لعلک رایتہ خارجاً من المسجد بعد الصلوٰۃ فانت لاتعرفہ‘‘ ’’شاید تم نے اسے نماز کے بعد مسجد سے باہر آتے دیکھا ہے۔ تم تو اسے نہیں جانتے ہو‘‘ کتاب اللہ اور احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں آدابِ معاشرت کی تمام تفصیلات شرح و بسط سے موجود ہیں۔ آئیے ہم اس کا ایک مختصر جائزہ لیں۔ مسکرانا نیکی ہے ارشادِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’تبسمک فی وجہ اخیک صدقۃ‘‘ [1] ’’اپنے بھائی سے ملتے ہوئے مسکرانا بھی نیکی ہے۔‘‘ اسلام دینِ فطرت ہے۔ وہ اسے ایک غیر فطری اور غیر طبعی بات قرار دیتا ہے کہ اس زندہ اور حسین کائنات میں جہاں چہچہاتے ہوئے پرندے، لہلہاتے ہوئے پودے، سرسبز و شاداب وادیاں اور اُبلتے ہوئے چشمے ہیں، ہم ایک روکھا، پھیکا اور بجھا ہوا چہرہ لےکر پھریں۔ عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
Flag Counter