اجازت مانگنے کا کیا حاصل؟ پرائیویسی کا جو مفہوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کیا تھا، اس دور کی متمدّن قومیں اس میں رَتی بھر اضافہ نہیں کرسکیں۔ ابوداؤد میں ہے: ’’کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اتیٰ باب قومٍ لم یستقبل الباب من تلقاءِ وجھہ ولٰکن من الأیمن او الأیسر‘‘[1] ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے دروازےپر آتے تو دروازے کے سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دروازے کی دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے تھے۔ ‘‘ قرآن مجید میں ہے: [ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ ][النور28] ترجمہ:’’ اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ‘‘ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی جنجال میں پھنسا ہوتا ہے یا بہت مضمحل ہوتا ہے یا اس پر کوئی ایسی افتاد پڑی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کے سامنے آنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ جھوٹےبہانے کے بجائے معذرت کرنی چاہئے اور یہ حکم دیا کہ آنے والے کو بھی معذرت قبول کرنی چاہئے۔ اس آیت پر عمل کرنے والے لوگ عنقا ہوئے۔ آج کل کسی بڑے سے بڑے متشرع آدمی کو کہیے کہ دوسرے وقت ملنے آئیے، تو دیکھیے کیسے بھنّاتا ہے۔قرآن مجید نے ہمیں تلقین کی کہ تین اوقات ایسے ہیں کہ ان میں کسی کے ہاں جانا مناسب نہیں حتیٰ کہ بچوں اور غلاموں کو بھی، جو ہر وقت گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ اجازت لینی چاہئے۔ [ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ۭ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ ڜ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ ] [النور58] ترجمہ:’’ لازم ہے کہ وہ (دن میں) تین وقتوں میں اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوا کریں ۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم کپڑے اتارتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تین |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |