Maktaba Wahhabi

317 - 453
اظہار رائے کے نتیجہ کے حوالے سے وقت کا بہت اہم کردار ہوتا ہے کہ انسان جب اپنی رائے دے رہا ہے اس وقت ماحول اور حالات کیسے ہیں ؟ اس کے ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ میں جن لوگوں سے مخاطب ہوں کیا میری بات صحیح سمجھ بھی پائیں گے یا نہیں ؟ صحابہ کرام سے بھی متعدد ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے بہت سے مسائل میں خاموشی اختیار کی اور اظہار رائے سے اجتناب کیا ۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لایا اور کہنے لگا کہ فلاں آدمی یہ کہہ رہا ہے کہ اگر عمر فوت ہوگئے تو میں فلاں کی بیعت کرلوں گا ۔ یہ بات سن کر عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں آج رات لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ایسے لوگوں کے بارے میں متنبہ کروں گا جو ان کی خلافت ہتھیانے کےچکر میں ہیں ۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے جب یہ بات سنی تو عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے امیر المؤمنین آپ ہرگز ایسا نہ کیجئےگا! ۔ کیونکہ یہ حج کا موقع ہے جس میں کم عقل ، ہنگامہ پرداز اور عامۃ الناسب بھی اکٹھے ہیں ۔ اور جب آپ خطاب کیلئے کھڑے ہوئے تو یہ لوگ آپ کی مجلس پر حاوی رہیں گے ، مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ آپ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو صحیح طرح ان کو سمجھ نہ آئے اور یہ لوگ اسے لے اڑیں اور اسے اس کا صحیح مقام نہ دیں ۔ لیکن آپ جب مدینہ منورہ تشریف لے جائیں تو وہ دارہجرت وسنت ہے ، وہاں آپ علماء اور اشراف کو جمع فرماکر جو کہنا چاہیں کہہ دیجئے گا وہ لوگ آپ کی بات سمجھ بھی لیں گے اور اسے اس کا جائز مقام بھی دیں گے ۔ عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ہاں : اگر میں مدینہ بخیر وعافیت پہنچ گیا تو یہ بات میں اپنے سب سے پہلے خطبے میں کہوں گا ۔ ۔۔[1] چوتھا اصول : اختلافی معاملات میں کسی کو اپنی رائے کا پابند مت بنائیں شریعت کے کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں نہ نص قرآنی ہوتی ہے نہ واضح حدیث اور نہ اجماع امت سے کوئی چیز ثابت ہوتی ہے ۔ اہل علم اپنی ذہنی صلاحیت واستعداد کے مطابق اجتہاد کرکے مسئلہ بیان کرتے ہیں ۔ اور بعض لوگ بطور تقلید ہر ایک کو اسی عالم کی رائے کا پابند بنانے کی
Flag Counter