مطلب یہ نہیں تھا کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت عقیدۂ علم غیب کا اظہار تھا بلکہ آپ کی رسالت کا اظہار تھا کہ رسول پر وحی کا نزول ہوتا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اپنے احکام سے بھی مطلع فرماتا ہے اور آئندہ آنے والے واقعات سے بھی بعض دفعہ باخبر کر دیتا ہے۔ بچی کے شعری مصرعے کا مطلب اسی وحیٔ الٰہی کا اثبات تھا، پھر بھی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس طرح کہنے سے روک دیا کہ مبادا بعد کے لوگ بدعقیدگی کا شکار ہوجائیں۔ علاوہ ازیں ایک د وسری روایت میں صراحتاً بھی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وَلَا یَعْلَمُ مَا فِيْ غَدٍ اِلَّا اللہ"[1]’’کل کا علم اللّٰہ کے سوا کسی کو نہیں۔‘‘ بہرحال اس واقعے سے خوشی کے موقعے پر چھوٹی بچیوں کا اشعار پڑھ کر اظہارِ مسرت کرنے کا اثبات ہوتا ہے۔ عہد نبوی کا ایک دوسرا واقعہ ہے، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہانے ایک لڑکی کو نکاح کے بعد شبِ زفاف کے لیے تیار کرکے اس کے خاوند (ایک انصاری مرد) کے پاس بھیجا۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا: تمہارے پاس لھو نہیں ہے؟ مَا کَانَ مَعَکُمْ لَھْوٌ؟ انصار کو لہو پسند ہے، فَإِنَّ الْأَنْصَارَ یُعْجِبُھمْ اللَّھْوُ۔[2] حافظ ابن حجرکہتے ہیں، ایک دوسری روایت میں مَا کَانَ مَعَکُمْ لَھْوٌ کی جگہ الفاظ ہیں: "فَہَلْ بَعَثْتُمْ مَعَھا جَارِیةً تَضْرِبُ بِالدُّفِّ وَتُغَنِّی" کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی بچی (یا لونڈی) بھیجی ہے جو دف بجا کر اور گا کر خوشی کا اظہار کرتی۔ اسی طرح فَإِنَّ الْأنْصَارَ یُعْجِبُہُمُ اللَّھْو کی جگہ دوسری روایت میں ہے: "قَوْمٌ فِیْہِمْ غَزْلٌ"[3]’’انصاریوں میں شعروشاعری کا چرچا ہے۔‘‘ اس دوسری روایت کے الفاظ سے پہلی روایت میں وارد لفظ لَہْو کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ واقعہ |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |