بارات میں عورتوں کی شرکت کے مزید مفاسد لڑکی والوں کے گھر جاتے وقت سوائے گھر کی خواتین کے (بیٹے کی ماں اور بہنوں کے) خاندان کی عورتوں اور دوست احباب کی بیگمات کو قطعاً ساتھ نہ لے جایا جائے اس لیے کہ بارات میں عورتوں کی شرکت بھی بے شمار مفاسد کا باعث ہے۔ عورتوں میں سادگی کا تصور بالکل ختم ہوگیا ہے ، حالانکہ حکم یہ ہے کہ عورتیں بالکل سادہ لباس میں باپردہ گھر سے باہر نکلیں، جب کہ ہوتا یہ ہے کہ خاندان میں کسی کی شادی کی اطلاع ملتے ہی گھر کی خواتین مردوں کو مجبور کرتی ہیں کہ گھر میں( بچیوں اور بیوی سمیت) تمام خواتین کے لیے کم از کم دو دو سوٹ اعلیٰ قسم کے تیار کیے جائیں ، ایک نکاح والے دن اور دوسرا ولیمے والے دن کے لیے کیونکہ خاندان کی ساری عورتوں نے ان کو دیکھنا ہے ، دونوں دن ایک ہی سوٹ میں اور سادہ لباس میں ملبوس ہونے کی صورت میں ان کی سبکی ہوگی۔ محدود آمدنی والے مرد کے لیے اپنے محدود بجٹ میں اس کے لیے گنجائش نکالنا بڑا مشکل ہوتاہے ، علاوہ ازیں لباس اور اس کی سلائی کے علاوہ ، سادگی کا تصور ختم ہونے کی وجہ سے ، میک اپ اور سولہ سنگھار کا سامان کا بھی مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے اور آنے جانے کے لیے کرائے کی گاڑی بھی ضروری ہے ۔ جو صاحب حیثیت گھرانے ہیں ان کی بیگمات کا ، مذکورہ اخراجات کے علاوہ ، زیورات کے نئے طلائی سیٹ کا مطالبہ ہوتا ہے ، گھر میں پہلے جو سیٹ بلکہ بعض کے ہاں کئی کئی سیٹ ہوتے ہیں ، ان کا کہنا ہوتا ہے وہ پرانے ہیں یا فلاں کی شادی میں میں نے وہ پہنے تھے ، اب وہی سیٹ اس شادی میں میں نے نہیں پہننا ہے اور آج کل کے زن مرید قسم کے شوہر یہ مطالبہ بھی پورے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور اب بہت سی خواتین میک اپ کے لیے بیوٹی پارلروں کی خدمات بھی حاصل کرتی ہیں اور وہاں سے اپنے بال، چہرہ اور ہر چیز سیٹ کروا کر شادیوں میں شریک ہوتی ہیں تاکہ وہ لباس اور زیورات ہی میں نہیں بلکہ حسن وجمال اور آرائش وزیبائش میں بھی یکتا اور ممتاز نظر آئیں، پھر ان تکلفات وتصنعات میں پردے اور نماز پڑھنے کا اہتمام کیوں کر ممکن ہے ؟ چنانچہ ہماری شادیوں میں ان سب کا تصور ختم |
Book Name | البیان اسلامی ثقافت نمبر |
Writer | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publisher | المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی |
Publish Year | 2015 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 452 |
Introduction | زیر تبصرہ کتاب دراصل سہہ ماہی البیان کی خصوصی اشاعت ہے جو اسلامی ثقافت کے بیان پر مشتمل ہے جدت پسند مذہب اور کلچر میں تفریق کی لکیر کھینچ کر کلچر کے نام پر رنگ رلیوں کو عام کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ایک مرکزی نظامِ حیات اور نظامِ اخلاق و اقدار دیتاہے اور پھر تمام اقوال وافعال رسوم ورواج الغرض مکمل انسانی زندگی کو اسی نظام حیات اور نظامِ اقدار سے منضبط کرتاہے ۔ اسلام ہر ثقافت اور تہذیب کو اپنی افکار وتعلیمات کے مطابق پروان چڑھتے دیکھنا چاہتاہے ۔ اسلام کا جامع مفہوم ’’سلامتی ‘‘ہے۔ اس لئے وہ ہر کام میں سلامتی کے پہلو کو برتر رکھتاہے ۔اور اس میں کسی تہذیب کی نقالی اور اور ان کی مذہبی رسومات کو کلچر کےنام پر عام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ دور حاضر میں اس طرح کی خرافات کی تردید کے لئے یہ خصوصی اشاعت شائع کی گئی جس میں نوجوانوں ، خواتین بچوں کی تربیت سے متعلقہ اہم موضوعات پر تحریروں کو شامل کیا گیا اور مختلف قسم کے غیر اسلامی رسوم اور تہواروں کی نشاندہی اور تردید کی گئی۔ بلکہ آخر میں مختلف قسم کے غیر اسلامی تہواروں کی فہرست بھی بنائی گئی ہے تاکہ نسلِ نو بخوبی جان سکیں کہ یہ رسوم و تہوار اسلامی نہیں ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔ |